پاکستان: سوا لاکھ ٹن آم برآمد کرنے کا ہدف، 10 کروڑ ڈالر زرمبادلہ کی توقع

سابق ڈائریکٹر مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے مطابق ’2023 کے مقابلے میں پچھلے سال آم کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی ہوئی، اس سال بھی 30 سے 40 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔ پیداوار میں مسلسل کمی خطرناک ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔‘

28 مئی 2024 کو پاکستان کے صوبہ سندھ کے ٹنڈو غلام علی میں کسان آموں کو برآمد کرنے کے لیے چھانٹ رہے ہیں۔ (آصف حسن / اے ایف پی)

پاکستان فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایسوسی ایشن نے رواں سیزن کے دوران ایک لاکھ 25 ہزار ٹن آم برآمد کرنے کا ہدف مقرر کر دیا ہے۔ آموں کی برآمد (ایکسپورٹ) 25 مئی سے شروع ہو رہی ہے، جس سے ملک کو 10 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہونے کی توقع ہے۔

پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’اس بار چین اور ترکی کی منڈیوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، جبکہ جاپان، آسٹریلیا، امریکہ اور جنوبی کوریا میں بھی پاکستانی آم کی موجودگی کو مزید مستحکم کیا جائے گا۔ اب تک پاکستانی آم سب سے زیادہ خلیجی ممالک اور دوسرے نمبر پر برطانیہ میں درآمد ہوتے ہیں۔‘

مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ترجمان عبدالصمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رواں سیزن میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور پانی کی قلت کے باعث سال 2023 کے مقابلے، پچھلے سال 2024 کی طرح اس بار بھی آم کی پیداوار میں 20 فیصد کمی کا سامنا ہو سکتا ہے اور مجموعی پیداوار 14 لاکھ 40 ہزار ٹن رہنے کا امکان ہے۔ لیکن سیزن ابھی شروع ہوا ہے، اس میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم برآمد کا مقرر کردہ ٹارگٹ ضرور پورا ہو جائے گا۔‘

مینگو گروور ایسوسی ایشن کے سربراہ زاہد گردیزی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اس سال بھی گذشتہ سال کی طرح آم کی پیداوار میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ برآمد کے ساتھ مقامی مارکیٹ میں بھی آم کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، حالات وہی ہیں جو سالوں سے چل رہے ہیں۔ آم کے کسان مناسب آمدن نہ ہونے پر اس بار بھی پریشان ہیں۔‘

سابق ڈائریکٹر مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سال 2023 کے مقابلے میں پچھلے سال آم کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی ہوئی اور اس سال بھی 30 سے 40 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔ پیداوار میں مسلسل کمی خطرناک ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔‘

آم کی پیداوار بڑھانے کا چیلنج

عبدالغفار کے بقول، ’آم کی پیداوار میں پہلے کمی بیشی ہوتی رہتی تھی، لیکن سال 2023 تک بمپر کراپ ہوئی اور مجموعی پیداوار 18 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی۔ لیکن اس کے بعد سال 2024 میں مجموعی پیداوار 14 لاکھ رہی، جو 40 فیصد تک کمی ہے۔ اس سال امید کی جا رہی تھی کہ یہ پیداوار 18 لاکھ سے بھی تجاوز کرے گی کیونکہ نئے باغات لگائے گئے اور کئی ورائٹیز میں بھی اضافہ کیا گیا، مگر اس سال پیداوار 14 لاکھ کے قریب ہی رہنے کی توقع ہے۔ ابھی سیزن شروع ہوا ہے، آندھیوں، طوفان اور ژالہ باری سے پیداوار مزید کم ہو سکتی ہے۔‘

بقول زاہد گردیزی، ’پاکستانی آم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک سو 24 سے زائد آموں کی اقسام پائی جاتی ہیں، جو شاید کسی اور ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔ آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ اس طرف کبھی وہ توجہ نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے۔ پنجاب اور سندھ میں پایا جانے والا آم منڈیوں میں ہی رُل جاتا ہے، جو تھوڑا بہت برآمد ہوتا ہے، بس وہی زر مبادلہ کمانے کے کام آتا ہے۔‘

’پورے ملک میں صرف ایک مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے جو ملتان میں واقع ہے، وہاں بھی وہ سہولیات موجود نہیں جن سے آم کی پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ جگہ جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیز آموں کے باغ اجاڑ رہی ہیں، پھر موسمیاتی تبدیلیاں بھی بڑا چیلنج ہیں۔ ہمارے پاس ایسی سہولیات نہیں کہ ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھیجنے کے لیے باغوں اور پیکنگ کا معیار قائم کر سکیں، کیونکہ لندن سمیت یورپ، امریکا، آسٹریلیا یا کینیڈا میں حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی غیر ملکی پھل کو لانے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘

پاکستانی آم کی دنیا میں طلب اور برآمد مسائل؟

پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد الیاس کے بقول، ’پاکستانی آموں کی دنیا بھر میں طلب ہے۔ ہمارا آم سب سے زیادہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر سمیت خلیجی ممالک میں درآمد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور افغانستان میں بھی کافی آم جاتا ہے۔ اس کے بعد لندن اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ اس بار ہم نے سوا لاکھ ٹن آم کی برآمد کا ٹارگٹ رکھا ہے جو پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے۔ گذشتہ سال ہم نے ایک لاکھ 10 ہزار ٹن کا ٹارگٹ رکھا تھا جو پورا کیا گیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’رواں برس جنوبی افریقہ کی نئی منڈی بھی پاکستان کو میسر آئے گی، اور اس سلسلے میں جنوبی افریقہ کے ماہرین کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ آم کی برآمد کی منظوری دی جا سکے۔‘

فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شپنگ کمپنیوں کی جانب سے اضافی فریٹ چارجز کا نوٹس لے، کیونکہ ان کے باعث برآمد کنندگان کو مالی نقصان کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی اثرات سے نمٹنے اور پیداوار میں بہتری کے لیے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

بقول الیاس، ’آموں کو پراسس کر کے پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں سے ٹرانسپورٹ کر کے کراچی لایا جاتا ہے اور پیکنگ کے بعد برآمد کیا جاتا ہے، لہٰذا ایکسپورٹر پہلے ہی اپنی مدد آپ کے تحت بہت سے اخراجات کر رہے ہیں، شپنگ کمپنیوں کے اضافی چارجز سے اخراجات زیادہ ہو رہے ہیں۔‘

پاکستان میں آم کی اقسام:

عبدالغفار کے مطابق، ’پاکستان میں 124 سے زائد آم کی اقسام پائی جاتی ہیں، جو اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے مینگو لورز میں بہت مقبول ہیں۔ پاکستان سے دوسرے ممالک میں سب سے زیادہ سندھڑی اور سفید چونسہ برآمد کیا جاتا ہے۔ اس سال ان دونوں اقسام کی فصل باقیوں کی نسبت بہتر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دُسہری، کالا چونسہ، چونسہ ثمر بہشت، مالٹا، لنگڑا کی پیداوار میں ہر سال کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔‘

مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے عہدیدار ڈاکٹر طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایکڑ (آٹھ کنال) آم کے باغ کی پیداوار 10 ٹن ہوتی ہے۔ پہلے ایک ایکڑ میں 32 تک پودے لگائے جاتے تھے، لیکن اب ہائی ڈینسٹی ٹیکنالوجی کے تحت ایک ایکڑ میں 80 تک پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ ملک بھر سے آم کی برآمدات میں 25 سے 30 فیصد ملتان کا آم شامل ہوتا ہے۔ ان میں دُسہری، چونسہ، کالا چونسہ، انور رٹول، لنگڑا اور مالٹا آم سمیت 12 اقسام شامل ہیں۔‘

ان کے خیال میں باغوں کی دیکھ بھال میں اضافے اور درخت کاٹنے سے روکنے کی پالیسی پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت لازمی ہے۔

خیال رہے کہ ملتان کو مینگو سٹی کہا جاتا ہے۔ اپریل 2021 میں سوشل میڈیا پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بننے سے آموں کے درخت کاٹنے کی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں، جس کے بعد حکام نے نوٹس لیتے ہوئے آموں کے باغات کاٹ کر سوسائٹیز بنانے پر متعلقہ اتھارٹیز سے این او سی لازمی قرار دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان