ایرانی سیبوں کی آمد سے کشمیری پھلوں کی صنعت میں مندی

ضلع شوپیاں سیب کے باغات کا مرکز ہے جہاں 18 لاکھ ٹن سیب پیدا ہوتے ہیں۔ سیب کی یہ پیدوار بھارتی سیب کی پیداوار کا 80 فیصد ہے۔

تجمل حبیب مکرو کو امید تھی کہ اس سال سیب کی بمپر فصل کی بدولت انہیں گذشتہ برس فصل کی کٹائی کے موقع پر قبل از وقت برفباری سے ہونے والے بڑے نقصان کا ازالہ ہوجائے گا لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب انہیں ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔

ان جیسے کاشتکاروں کو خدشہ ہے کہ سستے ایرانی پھلوں کی آمد سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پھلوں کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق ضلع شوپیاں سیب کے باغات کا مرکز ہے جہاں 18 لاکھ ٹن سیب پیدا ہوتے ہیں۔

سیب کی یہ پیدوار بھارتی سیب کی پیداوار کا 80 فیصد ہے۔ علاقے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر 50 لاکھ سے  زیادہ افراد سیب کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

یہاں سالانہ تقریباً 1.34 ارب ڈالرز کا سیب پیدا ہوتا ہے۔ گذشتہ سال افغانستان کے راستے سستے ایرانی سیب کی بھارتی مارکیٹ میں آمد کے بعد کشمیری سیب کی قیمت میں کمی آئی ہے۔ بھارت اور افغانستان نے آزادانہ تجارت کا معاہدہ کر رکھا ہے۔

شوپیاں کے گاؤں سوگن میں سیب کے باغات کے مالک مکرو نے کو بتایا: ’آج کی مارکیٹ گر گئی ہے۔ قیمتیں کم ہو گئی ہیں۔ ایران سے آنے والے سیب نے بھارت میں سیب کی قیمتیں کم کر دی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مکرو کا کہنا تھا کہ ایرانی سیب نے مقامی سیب کی قیمت آدھی کر دی ہے۔ ان کے مطابق: ’اس سے پہلے میں سیب کی ایک پیٹی پر 12 سو روپے کمایا کرتا تھا لیکن آج ریٹ چھ سو روپے ہیں۔ ہمیں جو قیمت مل رہی ہے سے پیداواری اخراجات پورے نہیں ہوتے۔‘

پھلوں کے کشمیری کاشت کاروں کی نمائندگی کرنے والی بڑی تنظیم کشمیر ویلی فروٹ گروورز کم ڈیلرز یونین نے جنوری کے اوائل میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو خط لکھا تھا کہ جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ سیب کی کشمیری صنعت کو بچائیں۔

یونین کے صدر بشیر احمد بشیر کہتے ہیں کہ ایران پر عائد عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی سیب سستا ہے۔

بشیر کہتے ہیں: ’جب ہمیں پتہ چلا ہم نے معاملہ بھارتی حکومت کے ساتھ اٹھایا اور حکومت کو خبردار کیا کہ اگر ایرانی مصنوعات بھارت آئیں تو پھلوں کی بھارتی صنعت بری طرح متاثر ہو گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی سیب پر ڈیوٹی عائد کرکے مقامی صنعت کو بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔

بھارت کے ایوان صنعت و تجارت کے صدر شیخ عاشق احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کے مداخلت نہ کرنے کی صورت میں مقامی صنعت کو بڑھا دھچکا لگے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ’بھارت کی مجموعی قومی پیداوار میں کشمیر کا حصہ آٹھ سے 10 فیصد ہے۔ جب جموں و کشمیر کے لیے بے روزگاری بڑا چیلنج ہو اس صورت حال میں حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کا سختی سے نوٹس لے اور ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا