آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں سال ممکنہ طور پر کچھ دن کی تاخیر کے باعث پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ میں 40 فیصد کمی کا امکان ہے، جس کا سبب ماحولیاتی تبدیلی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستانی آم کی چین، ترکی، برطانیہ، امریکہ، جاپان اور وسط ایشیائی ریاستوں سمیت مختلف ممالک کو برآمد کا آغاز ہر سال 20 مئی سے ہوتا ہے مگر رواں سال ایسا نہیں ہو سکا۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین سعید خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں آم کی پیداوار سب سے زیادہ پنجاب میں ہوتی ہے اور رواں سال پنجاب میں موسم سرما دیر تک چلا ہے اس لیے پنجاب میں آم کی پیداوار میں واضح کمی آئی ہے۔
’پنجاب میں آم کی پیداوار میں کمی کے باعث خدشہ ہے کہ اس سال بھی پاکستان سے آموں کی ایکسپورٹ میں کمی ہو گی اور یہ کمی 40 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ گذشتہ دو سال سے آموں کی برآمد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اس سال آم پکنے میں دیر لگی ہے اس لیے ممکنہ طور پر ایکسپورٹ کا آغاز دیر سے ہو گا۔ پیداواری کمی کے باعث قیمت میں بھی اضافے کا امکان ہے اور اگر قیمت زیادہ ہوئی تو یورپ سمیت مختلف ممالک میں جاری معاشی بحران کے باعث کم خریداری ہو گی۔
’رواں سال آم کی ایکسپورٹ گذشتہ سال کے ہدف سوا لاکھ ٹن کی نسبت کم کر کے ایک لاکھ ٹن رکھا گیا مگر ممکنہ طور پر یہ ہدف بھی حاصل نہ ہو سکے گا۔‘
سعید خان کے مطابق: ’پنجاب میں ملتان، رحیم یار خان، سندھ میں ٹنڈو الہیار، میرپورخاص، رانی پور اور خیبرپختونخوا میں چارسدہ کے آم معیار کے حساب سے بہتر سمجھے جاتے ہیں اور آم کی مختلف اقسام بشمول سندھڑی، انور رٹول، سنہیرہ ایکسپورٹ کوالٹی کی اقسام سمجھی جاتی ہیں۔‘
سندھ میں معیاری آم کی پیداوار میں شہرت رکھنے والے ایم ایچ فارم کے سربراہ غلام سرور پنہور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سال خراب موسم اور نباتات چوسنے والے کیڑے تھرپس کے باعث ان کے فارم پر آموں کی پیداوار 15 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔‘
غلام سرور پنہور کے مطابق: ’کیا ماحولیاتی تبدیلی کے باعث آم یا دوسرے پھل دار درختوں کو بیماری یا کیڑا لگ سکتا ہے، یہ تو ماہرین ہی بتائیں گے، مگر اس سال تھرپس لگنے کے باعث پیداوار کم ہوئی ہے اور اس کے ساتھ آم پر داغ بھی لگے ہیں اور داغ لگے آم ایکسپورٹ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ممکنہ طور پر ایکسپورٹ کم ہو سکتی ہے۔‘
غلام سرور پنہور نے مزید بتایا کہ ’آم کی فصل 20 مئی تک مکمل طور پر پک جاتی ہے، مگر اس سال 20 مئی قریب آنے کے باجود آم مکمل طور پکا نہیں ہے اور آم میں ذائقہ بھی نہیں آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آم کیوں کہ گرمی کا پھل ہے اور سخت گرمی اور گرم ہوائیں جتنی زیادہ لگتی ہیں، آم اتنا اچھا پکتا ہے۔ مگر اس سال گرم ہوائیں نہیں لگیں، اس لیے کچھ اثر ہوا ہے۔‘
ماہر موسمیات اور محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور موسمیات کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث نہ صرف شدید قدرتی آفات کا سامنا ہے بلکہ موسم بھی یکسر تبدیل ہو گئے ہیں، جس کے باعث اناج اور پھلوں پر منفی اثرات ہو رہے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ: ’ماحولیاتی تبدیلی کے باعث موسم سرما سکڑتا جا رہا ہے اور بہار اب موسم گرما میں بدل رہا ہے۔ موسم بہار شروع ہونے کے ساتھ اچانک کولڈ ویو یا کئی علاقوں میں ہیٹ ویو آنا معمول ہو گیا ہے۔‘
بقول ڈاکٹر غلام رسول: ’اگر ایک موسم جیسے بہار میں سردی یا گرمی ہوجائے تو اس موسم میں لگنے والی فصل یا پھلوں کا حجم کم ہونے کے ساتھ اسے مختلف نباتاتی بیماریاں لگنا عام بات ہے۔ جس کے باعث فصل کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے۔
’یہ تبدیلیاں ملک کے طول و عرض میں نظر آرہی ہیں۔‘