ٹھیک دو سال بعد ہم پاکستان کی آزادی کی 80 ویں سالگرہ منا رہے ہوں گے۔
اس وقت پاکستان دنیا کے پہلے سو امیرترین ممالک میں شامل نہیں ہے اگرچہ وہ مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے دنیا کی 26 ویں بڑی معیشت ہے لیکن خوشحالی کی 144ممالک کی عالمی درجہ بندی میں اس کا نمبر 114واں ہے۔
ہم پاکستان کی معاشی تنزلی کی جب بھی تاریخ دیکھتے ہیں تو اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ جب ہمیں آزادی ملی تھی تو ہمارے پاس کاغذ کو نتھی کرنے والی پنیں بھی نہیں تھیں اور ہم کیکر کے کانٹوں سے یہ کام لیتے تھے۔
آج ہم ایٹمی طاقت ہیں اور دنیا کی 12ویں بڑی جنگی قوت کے حامل ہیں۔ کیا واقعی یہ درست ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غریب ملک کے طورپر ہوا تھا ؟ جب اسے آزادی ملی تھی تو اس کی معاشی قوت کیا تھی اوراس کے پاس کتنا پیسہ تھا؟
آزادی کے وقت پاکستان کے حصے میں کتنا پیسہ آیا ؟
تین جون کو تقسیم ِ ہند کا منصوبہ پیش ہوا تو 12جون کو ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سربراہی میں پارٹیشن کونسل بنا دی گئی جس کے ذمے دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کا فارمولا طے کرنا تھا۔
کانگریس کی جانب سے اس کے ممبران میں سردار ولبھ بھائی پٹیل اور راجندر پرشاد شامل تھے جبکہ مسلم لیگ کی نمائندگی لیاقت علی خان اور سردارعبد الرب نشتر کے پاس تھی۔ بعد میں عبد الرب نشترکی جگہ خود قائد اعظم نے لے لی۔
اس کونسل نے باہمی افہام و تفہیم سے دونوں ممالک کے درمیان آثاثوں کی تقسیم کا ایک فارمولہ طے کیا جس میں آبادی کو بنیادی پیمانہ بنایا گیا تھا۔
اس حساب سے پاکستان کے حصے میں 17.5 فیصد کے حساب سے نہ صرف پیسہ آیا بلکہ اس وقت ہندوستان کے ذمے جتنے قرض تھے اس میں سے بھی پاکستان کو اسی تناسب سےادائیگیاں کرنی تھیں۔
یہ تو آج تک نہیں معلوم ہو سکا کہ اس وقت ہندوستان کے خزانے میں کتنا پیسہ اور کتنا سونا موجود تھا تاہم تاج ِ برطانیہ نے دونوں نوزائیدہ ممالک کو 400 کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا جن میں سے پاکستان کے حصے میں 75 کروڑ روپے رکھے گئے۔
ان میں سے 20 کروڑ روپے اسے 15اگست 1947 کو ہی ادا کر دیے گئے جبکہ باقی پیسوں کی ادائیگی کا معاملہ اتنا الجھا کہ گاندھی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کر دی جس کی وجہ سے بھارتی حکومت نے مجبوراً 15 جنوری1948 کو گاندھی کے احترام میں یہ رقم پاکستان کو دینے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ جس کے محض 15 دن بعد گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔
جو رقم پاکستان کو ملی آج کے حساب سے وہ کتنی ہے؟
1947 میں ڈالر تقریباً تین روپوں کے برابر تھا اور اس وقت کا ایک ڈالر آج کے 14 ڈالر کے برابر کی مالی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے حصے میں 75 کروڑ روپے آئے تھے جو تقریباً 25 کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔
ان 25 کروڑ ڈالروں کا تقابل آج کے ڈالر کی ویلیو سے کریں تو یہ تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کے برابر رقم بنتی ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادی کو ملایا جائے تو یہ تقریباً 4 کروڑ بنتی تھی۔
اس حساب سے 25 کروڑ ڈالر کی رقم اتنی معمولی بھی نہیں تھی۔ لیکن پاکستان کا اصل مسئلہ ایک طرف نقل مکانی کرنے والوں کا دباؤ تھا تو دوسری جانب بینکاری کا نظام نہ ہونا بھی تھا کیونکہ یکم جولائی 1948 سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا کی ہی عمل داری تھی۔ انڈیا اور پاکستان کی ایک ہی کرنسی چل رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقسیم کے وقت 99 بینک کام کر رہے تھے جن میں سے سوائے ایک بینک کے تمام بینکوں کے مرکزی دفاتر انڈیا میں ہی تھے۔ بینکنگ سیکٹر پر ہندوؤں کی مکمل اجارہ داری بھی تھی ۔ ان بینکوں کی متحدہ ہندوستان میں 3,496 برانچیں تھیں جن میں سے پاکستان میں صرف 631 موجود تھیں۔ اس لیے پاکستان کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ آزادانہ طور پر معاشی نظام چلانا تھا۔
تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں جو رقم آئی تھی وہ آج کے حساب سے ساڑھے تین ارب ڈالر کے مساوی بنتی ہے جبکہ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی صرف 4 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ آج پاکستان کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہے۔ گویا اگر پاکستان 2025 میں آزاد ہوتا اور اسی فارمولے کے مطابق اسے اپنا حصہ ملتا تو یہ رقم تقریباً 22 ارب ڈالر کے مساوی بنتی۔
اس حساب سے دیکھا جائے تو پاکستان پیسوں کے معاملے میں کوئی غریب ملک کے طور پر وجود میں نہیں آیا تھا۔ لیکن نیا ملک ، نیا نظام اور نقل مکانی کرنے والوں کی آباد کاری کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ اس وقت کی انتظامی مشینری کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہم تقسیم کے وقت کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے کہ پاکستان کو نامساعد معاشی حالات درپیش تھے۔
رقم کی تقسیم جو آج بھی ادھورا معاملہ ہے؟
تقسیم کو آج 78 برس ہونے کو آئے ہیں مگر دونوں ممالک کے مرکزی بنکوں کا کھاتہ ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ کھلا ہوا ہے۔ انڈیا ہر سال اپنی معاشی رپورٹ میں ان پیسوں کا ذکرکرتا ہے جو اس کے خیال میں پاکستان کے ذمے ابھی تک واجب الادا ہیں یہی کچھ پاکستان کا مرکزی بنک بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں کرتا ہے۔ انڈیا کے مرکزی بنک کے مطابق پاکستان کے ذمے تقسیم کے بعد واجب الادا قرضہ 300 کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔
دوسری جانب سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنی 2014 کی رپورٹ میں لکھا کہ ریزرو بنک آف انڈیا نے کچھ مخصوص اثاثے پاکستان کو ابھی تک منتقل نہیں کیے جو تقسیم کے وقت اس نے پاکستان کو دینے تھے۔
ان کی موجودہ مالیت 5 ارب 60 کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے جن میں سونے کے سکے، سٹرلنگ سیکورٹیز،انڈین حکومت کی سکے جو اس وقت ریزرو بنک آف انڈیا نے پاکستان کو منتقل کرنے تھے، شامل ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔