ہندوستانی ملکہ کا نایاب سفرنامۂ حج جو آج تک شائع نہ ہو سکا

بھوپال کی ملکہ سکندر بیگم نے 1864میں حج کرنے کے بعد سفر کی روداد لکھی جو اس دور کے عرب کے تہذیب و تمدن کا نایاب مرقع پیش کرتا ہے۔

1845 میں خانۂ کعبہ کی ایک تصویر۔ نواب سکندر بیگم نے اس کے 19 سال بعد وہاں کا سفر کیا تھا (پبلک ڈومین)

ویسے تو حج کے سفرنامے ابتدائی دور ہی سے مختلف زبانوں میں لکھے جاتے رہے ہیں مگر کسی خاتون کی جانب سے کسی بھی زبان میں حج کا پہلا سفرنامہ لکھنے کا اعزاز بھوپال کی نواب سکندر بیگم کا ہے جنہوں نے 1864 میں حج کیا تھا۔

’تاریخِ وقایع‘ کے نام سے لکھا جانے والا حج کا یہ سفرنامہ یا ’حج نامہ‘ اردو زبان کے پہلے دو حج ناموں میں سے ایک ہے، جس کے بعد یہ روایت قائم ہوئی اور اس کے بعد سے اردو میں سینکڑوں حج نامے لکھے جا چکے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اردو حج نامہ ابھی تک مخطوطے کی شکل میں انڈیا کے کسی کتب خانے میں مقید ہے، البتہ اس کا انگریزی ترجمہ 1870 میں انگلستان سے شائع ہو چکا ہے۔

نواب سکندر بیگم ہندوستانی ریاست بھوپال میں پیدا ہوئی تھیں، جو اس وقت برصغیر کی مالدار ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ اس کا رقبہ 23 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی دس لاکھ کے قریب تھی اور اس اعتبار سے یہ برٹش انڈیا کی دوسری بڑی ریاست تھی۔

 ان کی والدہ قدسیہ بیگم بھی نواب تھیں۔ 1860 میں نواب سکندر بیگم نواب مقرر ہوئیں اور 1968 میں اپنی وفات تک ریاست کی سربراہ رہیں۔

سفرِ حج کا غیر معمولی فیصلہ

19ویں صدی کے وسط میں برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی عظمت دم توڑ چکی تھی اور انگریز پوری طرح سے قدم جما چکے تھے، بھوپال کی حکمران نواب سکندر بیگم نے وہ فیصلہ کیا جو اس دور کی کسی مسلم خاتون حکمران کے لیے غیر معمولی تھا۔

1863 کے اواخر میں انہوں نے مکہ مکرمہ کا سفر اختیار کیا۔ ہندوستان کے پرانے حکمرانوں کی روایت رہی تھی کہ وہ حج کے سفر پر شاہی شان و شوکت سے جاتے، حاجیوں کے لیے کشتیاں فراہم کرتے اور مکہ و مدینہ میں مساجد، مدرسے اور مسافر خانے تعمیر کرواتے تھے۔

نواب سکندر بیگم کا سفر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ وہ بمبئی سے روانہ ہوئیں، ان کے ہمراہ ان کے ماموں نواب میان فوجداری محمد خاں، والدہ نواب قدسیہ بیگم، برطانوی حکومت کا نمائندہ ڈاکٹر تھامسن اور سینکڑوں افراد پر مشتمل قافلہ تھا۔ نذرانوں سے بھرا ایک جہاز بھی اس کاروان کا حصہ تھا۔

23 جنوری 1864 کو جدہ کی بندرگاہ پر پہنچنے پر انہیں معلوم ہوا کہ مکہ کے شریف اور پاشا کی اجازت کے بغیر اترنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ شریف مکہ کے حکمران تھے جب کہ پاشا عثمانی ترکوں کے مقرر کردہ حجاز کے گورنر تھے۔ اس زمانے میں حجاز سلطنتِ عثمانیہ کی عمل داری میں آتا تھا۔ آخر خاصی بحث اور گفت و شنید کے بعد اگلے دن جب قافلہ ساحل پر اترا تو انہیں اپنے طویل قافلے کی وجہ سے مقامی افسران کی جانب سے سرخ فیتے کا سامنا کرنا پڑا۔

کسٹم ہاؤس کے افسر کی زیادتی پر انہوں نے شکایت کی اور کیپٹن متو خاں کی سفارش پر کارروائی کی یقین دہانی ملی۔

جدہ سے مکہ کے سفر کے لیے شریف عبداللہ نے اپنے بھائی اور مترجم کو نواب سکندر بیگم کے پاس بھیجا اور پاشا نے اپنا بیٹا سلیمان بیگ۔ 80 اونٹوں پر مشتمل شاہی قافلہ، سوار فوج، مشعل برداروں اور طبلچیوں کے ہمراہ روانہ ہوا، مگر اس پرخطر سفر میں ڈاکوؤں کا خطرہ ہمیشہ موجود رہا۔ ایک موقعے پر ڈاکو سکندر بیگم کی والدہ نواب قدسیہ بیگم کی اونٹنی لے اڑے، مگر بدو خاں اور محافظوں نے مقابلہ کر کے انہیں بھگا دیا۔

مکہ مکرمہ پہنچ کر انہیں شریفِ مکہ نے کھانے کی دعوت دی۔ نواب سکندر لکھتی ہیں کہ دسترخوان پر 500 عرب کھانے موجود تھے مگر وہ رات کو شبنم گرنے کی وجہ سے ٹھنڈے ہو گئے تھے اور بےمزہ تھے۔ اگلے دن شریف نے معذرت کر کے دوستی کا پیغام بھیجا اور بیگم نے رمضان کے لیے پانچ نجی مکانات کی درخواست کی، جو خرید کر دے دیے گئے۔

مکہ میں قیام کے دوران بیگم نے عبادات کا آغاز کیا۔ قدسیہ بیگم کی سخاوت کی شہرت سے فقرا کا ہجوم رہنے لگا۔ شریف اور پاشا سے ملاقاتوں میں سکندر بیگم نے مقامی رسم و رواج کا گہرا مشاہدہ کر کے ان کی تفصیل رقم کی ہے۔ وہ مقامی خواتین کی شکل و صورت، آواز، لباس و زیورات اور عادات وغیرہ کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہیں جو اس دور کا دلچسپ مرقع ہے۔

نواب بیگم مدینہ منورہ بھی جانا چاہتی تھیں لیکن راستہ اتنا خطرناک تھا کہ اتنے بڑے کاروان کے ساتھ انہوں نے یہ خطرہ مول نہیں لیا۔ مقامی سرداروں نے انہیں تحفظ کی پیش کش بھی کی مگر بیگم اپنے ارادے پر قائم رہیں۔ انہوں نے اس فیصلے کی مختلف وجوہات درج کی ہیں جن میں اونٹوں پر کٹھن سفر کی صعوبتیں، لوٹ مار اور راستوں کی بندش شامل تھیں۔

نواب سکندر بیگم نے اس سفر کے دوران حجاز کی انتظامی بدحالی، بدعنوانی اور حاجیوں پر ظلم و ستم کا کھل کر مشاہدہ کیا۔ شریف اور پاشا کی بدانتظامی اور رشوت ستانی پر سخت تنقید کی، اور عثمانی ترکوں کو امن قائم نہ رکھنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے لکھا کہ حجاز میں نوآبادیاتی دور میں ہندوستانی حاجیوں پر ہونے والے مظالم ناقابلِ برداشت تھے اور قبائل ریاستی عمل داری کو چیلنج کرتے رہے۔

ان سب واقعات کی تفصیل نواب سکندر بیگم نے ’تاریخِ وقایع‘ کے نام سے لکھی، لیکن اس کے صرف دو مخطوطے تیار ہوئے، اسے کبھی شائع نہیں کیا گیا۔

منظرنگاری کی طاقت

اس سفرنامے سے ایک اقتباس دیکھیے جس میں نواب بیگم کی زبان دانی اور منظرکشی کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے:

کبھی کبھی پانی بھی برستا ہے، اور بعضے جگہ کچھ ترکاری سبزی بھی پیدا ہوتی ہے، اور میوہ پھوٹ اور ارنڈ ککڑی کی قسم سے جو ہندوستان میں ہوتا ہے، وہاں پیدا نہیں ہوتا، اور تمام مکہ معظمہ شہر میں درخت ایک نہیں اور زمین وہاں کی ریت زیادہ مٹی کم اور بھوری رنگ مائل ہے۔

پانی مکہ معظمہ کا بہت بہتر ہے۔۔۔ رات وہاں کی بہت اچھی اور سرد ہوتی ہے، سردی ناگوار نہیں ہوتی اور موافق مزاج کے ہوتی ہے، لیکن وقت باقی رہنے ایک گھنٹہ شب دن کی طرح گرمی شروع ہو جاتی ہے۔ چاندنی مکہ معظمہ کی بہت صاف اور غبار سے پاک ہوتی ہے۔ آسمان پر ابر کم اور مطلع صاف رہتا ہے، شبنم کثرت سے نہیں گرتی، ہوا زور سے چلتی ہے اور بادل گرجتا ہے، لیکن پانی کم برستا ہے، اور اگر برستا ہے تو اس کا زور گھنٹہ دو گھنٹہ رہتا ہے۔ ابر خفیف کبھی سایہ اور کبھی دھوپ کے ساتھ، البتہ دو دو دن تک رہتا ہے۔

پانی چاہِ زمزم کا باوجود کثرت خرچ کسی وقت اور کسی فصل میں کم نہیں ہوتا۔ جس قدر بھرا ہے اس قدر بھرا رہتا ہے۔ میوہ جات اور ترکاری سبزی تینوں فصل کی خصوصاً تربوز ککڑی اور انار جو طائف سے بکثرت مکہ معظمہ میں آتی ہیں ہندوستان کے میوہ سے بہت عمدہ اور مزہ دار ہوتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آب و ہوا سرزمینِ طائف کی بہت اچھی ہے، جس کی تاثر سے ایسے ایسے میوہ جات خوش مزہ اور شیریں وہاں پیدا ہوتے ہیں۔

یہ قیمتی دستاویز تو عوام تک نہیں پہنچ سکی، البتہ بھوپال میں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کی بیوی الزبتھ ولابی اوزبورن نے اس کا ترجمہ Pilgrimage to Mecca کے نام سے کیا۔ یہ سفرنامہ 1870 میں لندن سے شائع ہوا، اور اس کا انتساب ملکہ وکٹوریہ کے نام ہے۔

یہ سفرنامہ خطوط اور رپورٹ کی طرز پر لکھا گیا ہے اور اس میں حجاز کے راستے، حاجیوں کو درپیش خطرات اور مکہ کی معاشرتی روایتوں کا بیش قیمت اور منفرد بیان ہے۔

اس میں ایک ہندوستانی کی نظر سے عرب تہذیب و تمدن، آب و ہوا اور اندازِ حکمرانی کا جائزہ لیا گیا ہے، جو اس دور کا نادر مرقع پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ تحریر برصغیر کی مسلم تاریخ میں ایک نایاب دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین