انڈیا میں مسلمانوں نے خاموشی کو ہتھیار بنایا ہے: انڈین مصنف

اشوتوش گپتا کہتے ہیں کہ مسلمان سمجھ گئے ہیں کہ ان کی لڑائی ہندوؤں سے نہیں۔ جو دشواریاں پیش آ رہی ہیں وہ ہندتوادیوں کی جانب سے ہیں۔

انڈیا کے سینیئر صحافی اور ملکی سیاسی حالات پر نئی کتاب کے مصنف اشوتوش گپتا کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں نے اپنی خاموشی کو ہتھیار کی شکل دی ہے جس کا ان کو گذشتہ انتخابات میں دو ریاستوں میں فائدہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس مودی کا ایسا متبادل لانا چاہتی ہے جو ان کے سامنے جھکے نہ۔

انڈپینڈنٹ اردو سے دہلی سے ایک خصوصی انٹرویو میں نئی کتاب ’ری کلیمنگ بھارت - 2024 میں کیا تبدیلی آئی اور مستقبل کیسا ہوگا‘ کے مصنف اشوتوش نے کہا کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو بیانیہ کنٹرول کرنے کا فن آتا ہے لہذا اس جماعت کے مستقبل میں عوامی حمایت کھونے سے متعلق کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے۔

کتاب میں انڈیا کے مسلمانوں کے بارے میں اشوتوش نے ایک باب مختص کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے مسلمانوں نے 2024 کے عام انتخابات میں اپنی خاموشی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ’یہ موضوع میرا پسندیدہ رہا ہے۔ مسلمان سمجھ گئے ہیں کہ ان کی لڑائی ہندوؤں سے نہیں۔ جو دشواریاں پیش آ رہی ہیں وہ ہندتوادیوں کی جانب سے ہیں۔‘

اشوتوش گپتا انڈین یو ٹیوب چینل ستیہ ہندی کے شریک بانی ہیں۔ اس سے قبل وہ عام آدمی پارٹی کے رہنما اور ترجمان بھی رہ چکے ہیں جس کے بارے میں وہ اب زیادہ یاد نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن وہ انڈین نیوز ٹیلی ویژن چینل آئی بی این سے بطور نیوز اینکر اور مینیجنگ ایڈیٹر بھی وابستہ رہے ہیں۔

اشوتوش کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو لگتا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر اشتعال دلایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ مشتعل ہوتے ہیں۔ ’اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوتا ہے کیونکہ اس بہانے وہ ہندؤوں کے بڑے طبقے کو پولرائز یا متحد کر دیتے ہیں جو ان (ہندؤوں) کی ووٹنگ میں دکھائی دیتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا کے انتہائی دباؤ کے باوجود رائے نہیں دی جس کا انہیں اتر پردیش اور  مہاراشٹرا میں فائدہ ہوا۔

انڈین اینکر اور سابق سیاست دان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس ہندو راشٹرا یا ریاست کی تلاش میں گاندھی اور نہرو کے نظریات کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ’ان دونوں کے درمیان تناؤ موجود ہے۔ آر ایس ایس کا خیال ہے کہ نریندر مودی کے کلٹ کی وجہ سے چیزیں غلط سمت میں جا رہی ہیں۔ وہ ایسے رہنما کو سامنے لانا چاہتی ہے جو امت اور مودی کے سامنے جھک نہ سکے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ مودی کو کل ہٹا دیں۔ بی جی پی اب بھی دنیا کی سب سے امیر جماعت ہے۔‘

ہندوتوا اور آر ایس ایس کے مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس کی قیادت کامیابیوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور آخر کار ایک ایسے رہنما کی تلاش کر سکتے ہیں، جو بنیادی ہندوتوا کو برقرار رکھتے ہوئے زیادہ اعتدال پسند، جمہوری اور جامع نظر آئے، تاہم نفرت میں تربیت یافتہ کارکنوں کا انتظام کرنا ایک اہم چیلنج ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’اس کوشش کو صرف ایک سیاسی یا نظریاتی لڑائی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ ایک تہذیبی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کو بی جے پی کو کنٹرول کرنے، ریاستی طاقت اور پروپیگنڈے کا استعمال کرتے ہوئے عوامی شعور کو نمایاں طور پر نئی شکل دینے کے لیے دکھایا گیا ہے۔

کتاب میں بھی انہوں نے اپنے تجربے اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے انڈیا میں بدلتی سیاست کے بارے میں پریشان کن باتیں کی ہیں۔

ایک سوال جو ہر پاکستانی کے ذہن میں 10 مئی سے ہے کیا نریندر مودی دوبارہ حملے کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی دوبارہ گڑبڑ ہوئی اس کا قوی امکان موجود ہے۔

ان کا اصرار تھا کہ منموہن سنگھ اور نریندر مودی کے درمیان 2014 میں اقتدار کی منتقلی کوئی عام اقتدار کی منتقلی نہیں تھی اور اس کا موازنہ 15 اگست 1947 سے کیا جا سکتا ہے۔ ’اس کے بعد ملک نے بڑی تندیلی دیکھی ہے۔‘

یہ کتاب اس سال آر ایس ایس کے سو برس پورے ہونے کے موقع پر سامنے آئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین