نریندر مودی اور چارلس ڈیگال: بیانیے سے پسپائی تک

وقت بہت بےرحم ہے۔ مودی ایک ابدی ہیرو کے طور پر امر ہونا چاہتے تھے، مگر آج تاریخ کے قبرستان میں چارلس ڈیگال کے ہم پلہ کھڑے ہیں۔

انڈین پریس انفارمیشن بیورو کے ذریعے 12 مئی 2025 کو جاری کی گئی اس تصویر میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو نئی دہلی میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پاکستان کے ساتھ جنگ ​​بندی کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے (پی آئی بی انڈیا/ اے ایف پی)

تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ طاقت کے خواب دیکھنے والے رہنما اگر زمینی حقائق کو نظرانداز کر دیں تو انہیں زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بڑے خواب کبھی کبھار بڑے سانحات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جہاں وہ رہنما جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے، اپنے ہی بیانیے، غرور اور ناقص حکمت عملی کے باعث اپنی عظمت کے بوجھ تلے دب گئے۔ ڈیگال کی طرح مودی بھی تاریخ کے اس سبق کا شکار ہو گئے کہ بڑے خواب دیکھنے کے لیے صرف بڑے دعوے نہیں، بڑی بصیرت اور حقیقت پسندی بھی ضروری ہے۔

چارلس ڈیگال اور نریندر مودی گو دو مختلف عہدوں کے نمائندہ ہیں، مگر دونوں کے خواب بڑے، دعوے بلند اور انجام میں ایک عجیب سی خاموشی اور شکست خوردگی کا رنگ نمایاں ہے۔ ان دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ملک کو عالمی سطح پر طاقتور بنانے کی کوشش کی، مگر آخرکار وہ لمحہ آیا جب ان کے نظریات اور پالیسیوں کو شدید دھچکا لگا اور وہ تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہو گئے جہاں سے باوقار واپسی ممکن نہ تھی۔

چارلس ڈیگال نے دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانس کی قیادت کی، جلاوطنی میں رہ کر بھی فرانسیسی عوام کو ایک نیا حوصلہ دیا۔ وہ نہ صرف ایک فوجی رہنما تھے بلکہ ایک نظریاتی شخصیت بھی تھے۔ انہوں نے جنگ کے بعد فرانس کے سیاسی ڈھانچے کو نئی شکل دی اور ان کا خواب تھا کہ فرانس ایک آزاد، خودمختار اور عالمی طاقت بنے، جو کسی سپر پاور کے تابع نہ ہو۔ انہوں نے نیٹو سے علیحدگی اختیار کی، ایٹمی طاقت حاصل کی اور امریکہ و برطانیہ سے فاصلہ رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی مرتب کی۔

ڈیگال نے فرانس کو اپنے زورِ بازو پر عالمی سطح پر منوانے کی کوشش کی، لیکن وقت کے ساتھ ان کے نظریات میں شدت آتی گئی اور وہ حقیقت سے دور ہوتے چلے گئے۔ 1968 کے عوامی احتجاجوں نے ان کی حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ لاکھوں طلبہ اور مزدور سڑکوں پر آ گئے اور ملک میں افراتفری پھیل گئی۔

ڈیگال نے کوشش کی کہ وہ اپنی گرفت مضبوط رکھیں، مگر حالات ان کے قابو سے باہر ہو گئے۔ جب انہوں نے 1969 میں ایک آئینی ریفرنڈم میں شکست کھائی تو فوراً صدارت چھوڑ دی۔ اس طرح ایک ایسا شخص جو خود کو فرانس کا نجات دہندہ سمجھتا تھا، عوامی رائے کے سامنے سرنگوں ہو گیا اور باقی زندگی خاموشی اور گمنامی میں گزار دی۔

نریندر مودی نے 2014 میں زبردست عوامی حمایت کے ساتھ اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے ’نئے بھارت‘ کا خواب دکھایا، جس میں معاشی ترقی، قومی وقار اور عالمی طاقت بننے کی خواہش نمایاں تھی۔ ان کا بیانیہ سخت گیر قوم پرستی، ہندو مذہبی رجحانات اور پاکستان و چین کے خلاف سخت مؤقف پر مبنی تھا۔ مودی نے انڈین میڈیا کی مدد سے اپنے آپ کو ایک ناقابلِ تسخیر رہنما کے طور پر پیش کیا اور عوام نے بھی اس تصویر کو قبول کیا۔

لیکن جیسے ہی خارجہ پالیسی حقیقی آزمائش میں پڑی، ان کا بیانیہ کمزور پڑنے لگا۔ پلوامہ حملے کے بعد بالاکوٹ کی کارروائی ایک علامتی پیش قدمی تھی، جس کے فوری بعد پاکستان نے بھرپور عسکری ردِعمل دیتے ہوئے انڈین طیارہ مار گرایا اور ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کر لیا۔ مودی حکومت کے لیے یہ لمحہ ایک سخت سفارتی و عسکری دھچکا تھا۔

ابھی انڈیا اس مسئلے سے سنبھلا ہی نہ تھا کہ چین کے ساتھ لداخ میں سنگین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ چین نے متنازع علاقوں پر قبضہ کر کے انڈیا کو دفاعی پوزیشن پر مجبور کر دیا اور مودی کچھ نہ کر سکے۔ حکومت اور میڈیا نے ابتدا میں ان جھڑپوں کو چھپانے کی کوشش کی، مگر جب حقیقت کھل کر سامنے آئی تو مودی حکومت پر عوامی اور عالمی سطح پر سخت تنقید ہوئی۔

مودی کی پالیسیوں کی ایک بڑی خامی یہ تھی کہ انہوں نے زمینی حقائق کے بجائے خوابوں کی دنیا میں فیصلہ سازی شروع کر دی۔ انڈیا کو ایک عالمی طاقت بنانے کی خواہش اپنی جگہ، مگر یہ خواہش تبھی مکمل ہو سکتی ہے جب ریاست کی پالیسیوں میں توازن، تدبر اور علاقائی حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔ مودی کے اقتدار میں انڈیا نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جارحانہ پالیسی اپنائی، جس کا نتیجہ سفارتی تنہائی اور عسکری ناکامی کی صورت میں سامنے آیا۔

اندرونِ ملک بھی صورت حال کچھ مختلف نہ تھی۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، مسلم مخالف قوانین اور اقلیتوں کے خلاف پے در پے اقدامات نے مودی حکومت کو عالمی سطح پر متنازع بنا دیا۔ امریکہ، یورپ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا، مگر انڈین حکومت نے ہر تنقید کو پراپیگنڈا قرار دے کر رد کر دیا۔

’آپریشن سندور‘ ایک اور ایسا فوجی منصوبہ تھا، جس نے مودی حکومت کو پریشانیوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ جب مودی حکومت نے پہلگام واقعے کے بعد اپنے ’فوجی‘ بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کی تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہی نکلا۔

آپریشن سندور وہ آپریشن تھا، جس کا مقصد پاکستان کے ساتھ تناؤ کے دوران انڈیا کی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا، خاص طور پر ایئرفورس کے جدید رافیل طیاروں کی مدد سے۔ مودی نے رافیل طیاروں کو عسکری طاقت کا ایک اہم ستون قرار دیا تھا اور ان طیاروں کے ذریعے پاکستان کے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

مودی کا خیال تھا کہ رافیل طیارے انڈیا کے لیے گیم چینجر ثابت ہوں گے اور ان طیاروں کی موجودگی پاکستان کو شکستِ فاش دے گی، مگر جب آپریشن سندور میں انڈین طیارے پاکستان کے فضائی دفاع کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال ہوئے، تو پاکستان نے نہ صرف ان کو بےاثر کیا بلکہ طیارے بھی گرا دیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کا جوابی ردِعمل اتنا مؤثر تھا کہ انڈیا کا ایئر ڈیفنس سسٹم ہی دھڑام سے نہیں گرا، بلکہ مودی کی انا بھی گر کر پاش پاش ہو گئی۔ اس کے بعد میڈیا میں اس ناکامی کو چھپانے کی کوششیں کی گئیں، مگر بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ مودی کا بیانیہ محض لفاظی تھی، جب کہ حقیقت کچھ اور تھی۔

رافیل طیارے انڈیا کے لیے بڑی امیدوں اور توقعات کا باعث بنے تھے، مگر ان کی ناکامی نے مودی کی حکومت کے لیے بڑے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔

’56 انچ چھاتی‘ کے نعرے پر مودی نے اپنی طاقت کا تاثر بنایا تھا، مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ پاکستان نے انڈیا کے طیارے گرا کر اور مؤثر ایئر سٹرائیکس کر کے ثابت کر دیا کہ انڈیا کی عسکری طاقت اتنی مضبوط نہیں جتنی مودی نے عوام کو باور کروایا تھا۔ ایسی صورت حال میں نہ صرف انڈیا کی عسکری طاقت کو دھچکا لگا ہے، بلکہ عالمی سطح پر مودی کی قیادت کی صلاحیت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

مودی کی حالیہ تقریر اس حقیقت کا عکاس بن گئی کہ وہ ایک ایسے رہنما ہیں جو اپنی ناکامیوں سے نظریں چراتے ہیں۔ ان کی زبان میں نہ وہ پرانا جوش تھا، نہ وہ اعتماد، اگر کچھ تھا تو ایک ہارے ہوئے سیاست دان کا خوف۔ وہ الفاظ جو کبھی طاقت کا اظہار تھے، آج حقیقت سے فرار بن گئے ہیں۔ آج مودی پر انڈیا کے اندر سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وقت بہت بےرحم ہے۔ مودی ایک ابدی ہیرو کے طور پر امر ہونا چاہتے تھے، مگر آج تاریخ کے قبرستان میں چارلس ڈیگال کے ہم پلہ کھڑے ہیں۔

اگر چارلس ڈیگال کا انجام خاموشی اور گمنامی تھا، تو نریندر مودی کا انجام عوامی سطح پر ایک غیر اعلانیہ شکست، ہزیمت اور سفارتی تنہائی کی صورت میں ہو رہا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک قدرِ مشترک تھی: انہوں نے خود کو اپنے ممالک کی تقدیر سمجھا اور اپنے سیاسی بیانیے کو اتنی بلندی پر لے گئے، جہاں سے گرنے کی گونج تاریخ میں ہمیشہ سنائی دیتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور کتاب Pakistan Factor and the Competing Perspectives in India کے مصنف ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر