نریندر مودی کی سیاسی زندگی اس وقت ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ وہ جلد ہی 75 برس کی عمر کو پہنچنے والے ہیں، جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں غیر رسمی طور پر قیادت سے ریٹائرمنٹ کی عمر سمجھی جاتی ہے۔
اس تناظر میں مودی کی کوشش ہے کہ وہ اپنی سیاسی وراثت کو نہ صرف مضبوط بلکہ ناقابل فراموش بنائیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا نام نہ صرف بی جے پی بلکہ انڈیا کی تاریخ میں بھی ایک فیصلہ کن اور تاریخی رہنما کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آخری برسوں میں ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو نہ صرف ان کی جماعت بلکہ ہندو قوم پرست حلقوں کے دیرینہ خوابوں کی تکمیل ہیں۔
مودی نے گذشتہ دہائی میں خود کو بی جے پی کے ’مردِ آہن‘ کے طور پر منوایا ہے۔ ان کی قیادت میں بی جے پی نے وہ کامیابیاں حاصل کیں جو اس سے پہلے کسی بھی رہنما کے لیے ممکن نہ تھیں۔
اس کی بڑی وجہ انڈیا کی ریاستی ساخت کا طویل عرصے تک سیکیولر رہنا اور سیاسی اتحادوں کی مجبوریاں تھیں، جنہوں نے بی جے پی کو اپنے اصل ایجنڈے پر کھل کر عمل کرنے سے روکے رکھا۔
تاہم مودی نے پارٹی کے اندر اپنی پوزیشن کو اس قدر مضبوط کیا کہ اب وہ نہ صرف پارٹی بلکہ انڈین سیاست کے سب سے طاقت ور رہنما بن چکے ہیں۔
ان کی شخصیت نے ہندو قوم پرستوں کے لیے وہ سب کچھ حاصل کیا، جس کا وہ برسوں سے خواب دیکھتے آئے تھے۔
مودی کے دور میں انڈیا کی ریاستی ساخت میں ایک بنیادی تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے انڈیا کو سیکیولر ریاست سے ہندو اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش کی ہے۔
اس تبدیلی کے اثرات ہر شعبہ زندگی میں نظر آتے ہیں۔ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے میڈیا، سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔
ہجوم کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، جن میں زیادہ تر مسلمان اور دلت نشانہ بنے۔
’بلڈوزر جسٹس‘ کے نام پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی املاک کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے مسمار کیا گیا۔
یہ سب اس بات کی نشاندہی ہے کہ انڈیا میں ایک نئی ہندو پالیسی ابھر رہی ہے، جس میں رواداری اور سیکولرازم کی جگہ عدم برداشت اور اکثریتی بالادستی نے لے لی ہے۔
مودی نے اپنے دورِ حکومت میں کئی ایسے اقدامات کیے جو بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندو قوم پرستوں کے دیرینہ مطالبات تھے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، شہریت ترمیمی بل میں تبدیلی، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور وقف بورڈ میں ترامیم جیسے اقدامات اس ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
یہ وہ مقاصد تھے جو ساورکر اور ان کے ساتھیوں نے اپنے منشور میں بیان کیے تھے اور جن کی تکمیل اب مودی کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔
ان فیصلوں نے نہ صرف انڈیا کی داخلی سیاست کو متاثر کیا بلکہ خطے کی جغرافیائی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
مودی کی پالیسیوں نے انڈیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے، جس میں اختلاف رائے کو غداری سمجھا جاتا ہے۔
میڈیا کی آزادی سلب ہو رہی ہے، عدلیہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور سول سوسائٹی کو ریاستی اداروں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کو اکثر ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے یا انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جس سے قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بنیادی اصول پامال ہو رہے ہیں۔
یہ سب کچھ اس نئی ہندو ریاست کے قیام کی طرف اشارہ ہے جس کا خواب آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریہ سازوں نے دیکھا تھا۔
مودی نے اپنی سیاسی کامیابیوں کو صرف داخلی سطح تک محدود نہیں رکھا بلکہ خارجہ پالیسی میں بھی جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سختی اور تصادم کی پالیسی اپنانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے اقدامات نے نہ صرف پاکستان کو مشکل میں ڈالا بلکہ خطے کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔
مودی جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھا کر وہ ہندو قوم پرست حلقوں میں اپنی مقبولیت کو مزید بڑھا سکتے ہیں اور اپنی سیاسی وراثت کو ناقابل فراموش بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ تصادم کی پالیسی اپنانا مودی کے لیے کئی حوالوں سے فائدہ مند رہا ہے۔
ایک طرف وہ داخلی سطح پر اپنی مقبولیت کو بڑھا رہے ہیں، دوسری طرف وہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ایک ایسا معیار قائم کر رہے ہیں، جس تک پہنچنا آسان نہیں۔
امت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور نتن گڈکری جیسے رہنما اب مودی کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور ہیں اور ان کے لیے ایک نئی ہندو سیاست کا راستہ ہموار ہو چکا ہے۔
مودی چاہتے ہیں کہ ان کا نام ہمیشہ کے لیے ہندو قوم پرست سیاست کے ہیرو کے طور پر یاد رکھا جائے، چاہے اس کے لیے انہیں خطے کی سلامتی اور انڈیا کی جمہوری روایات کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔
پہلگام حملے کے بعد کی صورت حال اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان محدود جنگ نے مودی کے اس ایجنڈے کو مزید تقویت دی ہے۔
22 اپریل، 2025 کے اس سانحے کے بعد انڈیا نے روایتی انداز سے ہٹ کر بغیر کسی ٹھوس ثبوت یا غیر جانب دار تحقیقات کے غیر معمولی تیزی اور شدت سے پاکستان پر الزام عائد کیا۔
اس کے بعد سفارتی تعلقات میں کمی، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، ویزوں کی منسوخی اور پاکستانی سفارت کاروں کی ملک بدری جیسے اقدامات کیے گئے۔
اس کے بعد اس نے ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں پر حملے کیے اور اس کے بعد سے اسرائیلی ڈرونز کے ذریعے پاکستان کے اندر دراندازی کا سلسلہ جاری ہے۔
اس صورتِ حال نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کو مزید گہرا کیا بلکہ خطے کی سلامتی کو بھی شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
بین الاقوامی برادری نے بھی اس صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں ممالک سے تحمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، مگر انڈیا کی حکمت عملی میں اب بھی جارحانہ پن غالب ہے۔
یہ تمام اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مودی اپنی سیاسی وراثت کو ہندو قوم پرستوں کے لیے ایک ’ابدی ہیرو‘ کے طور پر محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
وہ اپنے بعد آنے والے رہنماؤں کے لیے ایک ایسی مثال چھوڑنا چاہتے ہیں، جسے پیچھے چھوڑنا مشکل ہو۔
پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو انڈیا میں جمہوریت، رواداری اور سیکیولرازم مزید کمزور ہوں گے جبکہ خطے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔
مودی کا یہ طرزِ سیاست نہ صرف انڈیا کی داخلی سیاست بلکہ جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
موجودہ کشیدہ منظرنامہ یہ واضح کرتا ہے کہ مودی اپنی سیاسی میراث کو ہندو قوم پرست ایجنڈے کی تکمیل کے ساتھ جوڑ چکے ہیں اور اس مقصد کے لیے خطے کی سلامتی اور جمہوری روایات کو بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔
مستقبل قریب میں انڈیا کی داخلی و خارجی پالیسیوں میں مزید سختی، اقلیتوں کے لیے مشکلات اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ متوقع ہے، جو مودی کے لیے ایک ’تاریخی رہنما‘ اور ہندو قوم پرستوں کے لیے ’ابدی ہیرو‘ کے تاثر کو مضبوط کرے گا۔
ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور ’Pakistan Factor and the Competing Perspectives in India‘ کے مصنف ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔