ڈچ تجزیہ نگار وان ڈی ہار کا روسی نژاد امریکی مصنفہ آئن رینڈ کے مضمون ’دا روٹس آف وار‘ کے بارے میں مشاہدہ ہے کہ وہ ریاستی جبر کی نظریاتی جڑوں کو اجتماعیت کی ایک قدیم شکل سے جوڑتا ہے جسے وہ ’قبائلیت‘ کا نام دیتی ہیں۔
ان کے مطابق قبائلیت انسانوں کے درمیان مستقل تنازعے کی ایک بنیادی وجہ رہی ہے۔ رینڈ کا مضمون یا جارج اورویل کا ’1984‘ ناول پڑھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کو مستقبل کی پیشں گوئی کے لیے استعمال کرنا ایک گہری فکری صلاحیت ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جبری تنازعات، ردعمل پر مبنی مزاحمت اور معاشی مشکلات مستقل طور پر ایسے سیاسی نظریات کو جنم دے رہی ہیں جو انسانی فلاح کو نظر انداز کر کے طاقت کے حصول کو فوقیت دیتے ہیں۔
رینڈ ریاستی جبر کو اسی قبائلی رویے سے جوڑتی ہیں جہاں خوراک اور رہائش جیسے بنیادی مسائل کا حل طاقت کے زور پر کیا جاتا تھا۔ افسوس کہ آج جدید ٹیکنالوجی کے تمام امکانات کے باوجود دنیا اسی پرانے ڈگر پر چل رہی ہے۔ طاقت کا استعمال، دو طرفہ چیلنجز اور بے جا لفاظی اور عملی تشدد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی بالکل بیسویں صدی کے ان سائنسی ناولوں جیسی لگتی ہے جن میں ایک بے قابو دنیا کی پیشگوئی کی گئی تھی۔
اور جب دماغی امور مصنوعی ذہانت نبھا رہے ہیں تو یہ حقیقت قدرتی آفت جیسی لگتی ہے خاص طور پر جب اس کا بروقت سدباب نہ کیا جائے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والا انڈیا اب قوم پرستی کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جس کے ذریعے اندرونی مسائل اور عالمی تنقید سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ یہ خطرناک سیاسی حکمت عملی خطے کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دہلی کے کیے گئے اقدامات، چین اور پاکستان کے حوالے سے جنگجویانہ رویہ اور انسانی حقوق کی گرتی ہوئی صورت حال فوری توجہ کی متقاضی ہے۔
قوم پرستی بطور فلسفہ ریاست کو ایک متحد اور ترقی پذیر قوم کے طور پر محفوظ رکھتی ہے لیکن انڈین قوم پرستی نے صرف جارحیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جسے وہ حب الوطنی کا نام دے کر پیش کرتے ہے تاہم ایک مثبت پہلو جس کا ذکر ضروری ہے، وہ سوشل میڈیا پر عوامی آواز کا ابھرنا ہے۔
پہلی بار انڈین عوام کا ایک بڑا طبقہ ہر بار پاکستان کو الزام دینے کی بجائے داخلی طور پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ انڈیا کی کشمیر اتنی وسیع سکیورٹی فورسز کہاں تھیں؟ کشمیر میں تعینات سات لاکھ فوجی کیا کر رہے تھے؟ یہ سوچ کا ابھار ایک اہم لمحہ ہے اور پاکستان کے مقف کی ایک بڑی تائید۔
پاکستان بارہا انڈیا پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی خفیہ مدد، دہشتگردی میں ملوث ہونے اور افغانستان میں انڈین قونصل خانوں کے ذریعے تخریبی کارروائیوں کی پشت پناہی جیسے الزامات لگاتا رہا ہے جن کے واضح شواہد انڈین خفیہ اداروں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
1948 سے اب تک زمینی اور سیاسی محاذوں پر مسلسل محاذ آرائی کے باوجود پاکستان اس امید پر قائم ہے کہ وہ اپنی 91.3 فیصد سرحد کو تجارت اور عوامی خوشحالی کے لیے فعال بنا سکے۔ مگر یہ خواب، خواب ہی رہ جاتا ہے خاص طور پر جب انڈیا میں انتخابات قریب آتے ہیں۔
اب ایک پیٹرن واضح ہو چکا ہے یعنی انڈیا کی اشتعال انگیزیاں انتخابات سے پہلے بڑھ جاتی ہیں جو ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ریاست بہار کے انتخابات قریب ہیں جہاں بی جے پی کو شرمناک شکست ہوئی تھی اور ایک بار پھر جعلی حملوں جیسی وہی پرانی چالیں سامنے آئیں جن کا مقصد پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینا اور ہندو قوم پرست ووٹ بینک کو متحرک کرنا ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نریندر مودی کی قیادت میں خوف کی سیاست اور فرقہ واریت کو ہوا دینا سیاسی بقا کا بنیادی اصول بن چکا ہے، جس سے قلیل مدتی انتخابی فائدے تو حاصل ہو رہے ہیں لیکن طویل مدتی علاقائی امن داؤ پر لگ چکا ہے۔
انڈیا کا قومی ترانہ روحانیت اور انسانیت پر مبنی ہے جو اتحاد، آزادی اور ہم آہنگی کی نمائندگی کرتا ہے، ایک ایسا وژن جو ٹیگور کے تخیل میں ایک پرامن، انصاف پسند اور ہمدرد ریاست کی شکل میں جھلکتا ہے۔
اقبال کی نظم ’سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا‘ بھی اسی جذبے کو ظاہر کرتی ہے جو ایک متنوع اور پرامن انڈیا کا خواب تھا لیکن آج مودی حکومت نے انڈین جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ لیکن آج مودی کے بھارت میں میڈیا، ادارے اور تعلیم سب اس تنگ نظری کے شکار ہو چکے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں پر ظلم بڑھ گیا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو سختی سے کچلا جا رہا ہے۔ آج وہ صحافی، دانشور اور سماجی کارکن جنہیں کبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یا تو خاموش کر دیے گئے ہیں یا دباؤ میں آ چکے ہیں۔
2002 کے گجرات فسادات کے مرکزی کردار مودی اب ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جو انڈیا کو آمریت کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ان کی حکومت نے نہ صرف انڈیا کی جمہوری بنیادوں کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ ان کی وراثت تشدد کو ہوا دیتی ہے اور مفاہمت کو ختم کرتی ہے اور یہ اب چھپایا نہیں جا سکتا۔
ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین افواج رکھنے والا پاکستان مجبور ہو رہا ہے کہ وہ یہ سوچے کہ آیا اسے طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے یا پھر دانشمندی سے کام لے کر انڈین عوام اور عالمی طاقتوں پر اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ اس صورتحال کو قابو میں رکھیں گے۔
پاکستان کسی جزیرے کی طرح تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے پاس جغرافیائی سیاست میں اہم اتحادی ہیں اور وہ ترقی کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر صرف معیشت کی بات کی جائے تو واضح ہے کہ گریٹر ایشیا اور مشرق وسطیٰ کا خوشحال مستقبل جنوبی ایشیا کے امن سے وابستہ ہے۔
یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز میں شائع ہو چکی ہے۔
مصنف پاکستان کے سابق وزیر سرمایہ کاری اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ وہ سیاسی تجزیہ کار اور کاروباری شخصیت بھی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔