آر ایس ایس آج کل مسلمانوں سے پینگیں کیوں بڑھا رہی ہے؟

ہندوتوا جماعت آر ایس ایس نے مسلم دنیا کے خدشات کے پیش نظر شاید ایک نئی پالیسی مرتب کی ہے جس کی شروعات مسلم دانشوروں سے ملاقات، مساجد اور مدرسوں میں جانے سے ہو گئی ہے۔

الہ آباد میں آر ایس ایس کے زیراہتمام سکول کے بچوں کی ایک تقریب (اے ایف پی)

’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہندوتوا جماعت آر ایس ایس کے رہنما کا مسلمانوں سے حالیہ تعلقات قائم کرنا محض ایک اتفاق ہے یا ملک میں جاری اقلیت مخالف پالیسی پر ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ پیدا ہوا ہے تو شاید یہ عوام کا بھرم ہے یا وہ اس جماعت کی مسلم مخالف پالیسیوں سے واقف نہیں ہیں۔‘

یہ خیالات ہیں لکھنو کے ایک دارالعلوم سے وابستہ مولوی امان اللہ کے، جو کہتے ہیں کہ ہندوتوا کی پالیسی تو اب امریکہ اور برطانیہ تک برآمد ہو چکی ہے جہاں لیسٹر اور نیو جرسی میں حالیہ فسادات اس کی تازہ مثالیں ہیں۔

انڈیا میں تقریباً ایک دہائی سے جاری اقلیت مخالف مہم اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب گاؤکشی، لو جہاد، بل ڈوزروں سے گھر منہدم کرنے، مسلم تاجروں کا بائیکاٹ، مساجد اور وقف بورڈ کو ہتھیانے کے منصوبوں کے بعد پیغمبر اسلام کی میڈیا چینل پر توہین کی گئی، جس کے فوراً بعد مسلم دنیا سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

ماضی میں کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کو سنگھ پریوار میں شامل کر کے گھر واپسی کے پروگرام پر عمل درآمد کیا جایا، لیکن یہ کوششیں ابھی تک لاحاصل رہی ہیں۔

اب آر ایس ایس نے مسلم دنیا کے خدشات کے پیش نظر شاید ایک نئی پالیسی مرتب کی ہے جس کی شروعات پارٹی کے سربراہ موہن بھاگوت کی مسلم دانشوروں سے ملاقات، مساجد اور مدرسوں میں جانے سے ہو گئی ہے۔

انڈیا کے بیشتر مسلمانوں نے اس پر نہ صرف حیرت کا اظہار کیا بلکہ اسی روز جب مسلم جماعت پیپلز فرنٹ آف انڈیا کے درجن بھر ریاستی دفاتر پر چھاپے مارے جا رہے تھے اور سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو ہر طرف ماحول کو شکوک کی ایک نئی لہر نے آلودہ بنا دیا۔

جنوبی انڈیا میں مسلمانوں نے چھاپوں اور گرفتاریوں کی اس کارروائی کے خلاف احتجاج کرنا چاہا مگر رپورٹوں کے مطابق انہیں ڈرا دھمکا کر خاموش کر دیا گیا ہے۔ عوامی حلقوں نے بھاگوت کی ملاقاتوں پر اپنی برہمی ظاہر کر کے اسے ہندوتوا کے ایک نئے ڈرامے سے تعبیر کیا ہے۔

موہن بھاگوت سے مسلم دانشوروں نے ایک ماہ ملاقات کے بعد میڈیا پر انکشاف کیا کہ آر ایس ایس کے سربراہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی طرح بنیادی حقوق میسر ہوں جس کے لیے مسلمانوں کو بھی اپنی سوچ میں بدلاؤ کی امید کی جا رہی ہے۔

دلی کے ایک مدرسے میں جا کر بچوں سے ملاقات کے دوران بھاگوت نے بچوں سے سوال کیا کہ ’قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ گیتا کیوں نہیں پڑھتے؟‘ جس پر چند مسلمانوں نے بعد میں اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے کبھی ہندوؤں سے نہیں پوچھا کہ گیتا کے ساتھ آپ قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟‘

حیدرآباد دکن کے معلم عبدالرحمان کہتے ہیں کہ ’جس روز مسلمانوں کی انجمن پی ایف آئی کو نشانہ بنا کر ہمیں ہر طرف سے بے اختیار کرنے کی کارروائی کی جا رہی تھی اور جس کا نوٹس مسلم امّہ ضرور لے لیتی اسی روز میڈیا پر موہن بھاگوت کی مسلم دانشوروں اور مدرسوں میں جانے کی خبر کا اتنا چرچہ کیا گیا کہ چھاپوں اور گرفتاریوں پر سے توجہ ہٹانے کی ان کی بھرپور کوشش کامیاب ہو گئی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہندوتوا کی پالیسی اندرونی طور پر مسلمانوں کو ہر حق سے بے دخل کرنا ہے لیکن سطحی طور پر اس کو مشتہر کرنا کہ آر ایس ایس کے رہنما مسلمانوں سے قربت حاصل کر رہے ہیں لیکن مسلم آبادی، بہت دیرسے ہی سہی، ہندوتوا پالیسی اور اس کی میڈیا مشینری کی تشہیر سے خوب واقف ہے۔ پی ایف آئی پر پابندی عائد کرنا کیا اس کی تازہ مثال نہیں ہیں۔‘

وہ مسلم دانشور جو بھاگوت سے اگست میں ملے تھے، کہتے ہیں کہ ’سر سنگھ چالک‘ یعنی سنگھ کے سربراہ کو مسلمانوں کو درپیش مسائل کا خوب احساس ہے، جس کا عندیہ ان کے چند بیانات سے ملتا ہے۔ انہوں نے گیانواپی مسجد پر پائے جانے والے تنازعے پر کہا تھا کہ ہندوؤں کو ہر مسجد کے نیچے شولنگ ڈھونڈنے کی کوشش سے باز رہنا چاہیے۔ بھاگوت نے اس بات سے اتفاق کیا کہ انڈیا کے مسلمانوں کو ’ہندو مسلمان‘ کہنے کے بجائے انڈین مسلم کہنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوبی ایشیا کے سیاسی امور کے استاد راحیل بھٹناگر کا خیال ہے کہ ’چاہے آر ایس ایس ہو یا بی جے پی، دونوں نے اپنا ایجنڈا تقریباً مکمل کر لیا ہے۔ وہ چاہے بابری مسجد کا انہدام، ٹرپل طلاق یا آرٹیکل 370 ہو، ہندوتوا نے اندرونی طور پر مسلمانوں کو بے اختیار کر کے دوسرے درجے کی شہریت تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے کھلے عام مارنا، ہراساں کرنا یا الزامات دینا عام تھا، اب اس پر شاید روک لگا دی گئی ہے۔ اب انتظامیہ، پولیس اور عدلیہ میں خفیہ طریقے سے ان کی رہی سہی نمائندگی ختم کی جا رہی ہے۔

’اس کا ادراک اپوزیشن جماعتوں کو بخوبی ہے، خاص طور سے کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کو جنہوں نے مذہبی تفریق کی بڑھتی ہوئی اس لہر کے نتیجے میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ شروع کی ہے، جس میں عام ہندو اور اقلیتوں کی شمولیت سے ہندوتوا جماعتوں میں گھبراہٹ شروع ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاگوت اس کا توڑ کرنے کے لیے مسلمانوں سے رابطے شروع کرنے لگے ہیں۔‘

بیشتر تبصروں میں یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ مسلم دنیا خصوصاً عرب دنیا میں انڈین مسلموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر باہم وزرا ملاقاتوں میں اکثر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اندرونی طور پر کارکنوں کو اشتعال انگیز بیانات دینے سے روک دیا گیا ہے۔

انہی خدشات کے پیش نظر آر ایس ایس نے مسلمانوں کے ساتھ تعلق پیدا کر کے پبلک ریلیشنز مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

بھاگوت کی ملاقاتوں یا مدرسوں میں جانے کی کچھ بھی وجوہات ہوں مگر جو نقصان انڈیا کی سیکولر روایات اور اداروں کو پہنچا ہے، اس کی تلافی اتنی جلدی ممکن نہیں ہے۔

آر ایس ایس چاہے تو انڈیا کو مزید مذہبی منافرت سے روک سکتی ہے، جو بی جے پی کی حکومت کے اختیار میں ہے، تاہم اس کے لیے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنا لازمی ہو گا جو شاید سنگھ پریوار اور اس سے جڑی پارٹیوں کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات تک منظور نہیں ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ