پیغمبر اسلام سے ہندوتوا سوچ کی پرانی دشمنی

دو ارب مسلمان ایک طرف شدت پسند یہودیوں کے ظلم وجبر اور جارحانہ تجاوز کا شکار ہیں اور دوسری طرف ہندوتوا کے حامی بالواسطہ طور پر ان کے مقابل آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

14 جون 2022 کی اس تصویر میں بھارتی شہر کلکتہ میں مسلمان اور ہندو شہری بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے ’توہین آمیز‘ بیانات کے خلاف یکجہتی ریلی میں شریک ہیں(اے ایف پی)

پیغمبر اسلام کے خلاف ہندوتوا میں بغض و عناد اور نفرت کی جڑیں بہت پرانی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے بعد آج کے بھارت میں بھی نفرت کے اسی بیج سے کوئی نہ کوئی نیا واقعہ وجود پا لیتا ہے۔

بھارت کا ایک حصہ اپنے تمام تر ’شائننگ انڈیا‘ کے دعووں اور پراپیگنڈوں کے باوجود صدیوں پرانی ہندوتوا کے تاریک دور میں رہ رہا ہے اور بہت سے حلقوں میں چھوت چھات کا نظام آج بھی رائج ہے۔

ہندوتوا کے چھوت چھات کے فلسفے نے بھارت میں بیس بائیس کروڑ دلتوں کو صدیوں سے انسانی درجے سے نیچے کی زندگی اور گہرے امتیازی رویوں کی بدترین مثال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ بھارت کے ایک حصے میں دلتوں کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور رشتہ داری کا معاملہ کرنا تو درکنار، انہیں عبادت کے لیے عام مندروں میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے کہ اس سے ان کے پتھر اور کاٹھ کے بنے بت بھی بھرشٹ ہو جاتے ہیں۔

ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ سے لیس بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا ان کی بی جے پی کے دوسرے چھوٹے اور بڑے رہنما بشمول نوپور شرما سب ہی عرب معاشرے کو عزت وشوکت دینے والے اسلام کے نظریاتی پیغام سے منافرت رکھتے ہیں۔

ہندوتوا کے ماننے والے اسی ساہوکاری نظام کے تحت ’چھوٹی جاتوں‘ کے شودروں کا معاشی اعتبار سے خون چوستے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اقلیتوں کا استحصال کرتے ہیں۔

اس ناطے ہندوتوا کی سوچ میں ڈھلا ہوا کوئی ایک فرد، معاشرہ اور حکومت جب موقع پاتے ہیں محمد عربی پیغمبر اسلام کی توہین کر کے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہندوتوا کی نظر میں ایسے لوگ ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عام شدت پسند سے لے کر سیاسی رہنماؤں، ارکان پارلیمنٹ اور وزیروں، مشیروں تک سب ہی اسلام اور داعی اسلام کے خلاف ایسی حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اقلیتوں اور دیگر مذاہب کے خلاف بھارت میں پائی جانے والی نفرتوں کا تازہ اظہار امریکی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔

صرف یہی نہیں پیغمبر اسلام کے ساتھ جڑے ہر فرد اور سوچ کو قبول کرنا غیر ممکن ہے۔ اسی پس منظر میں بھارتی معاشرے اور بھارت کے ہاں عربوں کے لیے قبولیت کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت تو ہو سکتی ہے، حقیقتا نہیں۔

حجاج بن یوسف کے زمانے میں عرب تاجروں کے ساتھ بھارت آنے والی گھریلو عرب خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور توہین کا رویہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی، جس کا توڑ کرنے کے لیے محمد بن قاسم برصغیر آئے۔

دوسری طرف یہ خوش آئند بات ہے کہ پیغمبر اسلام کی شان اقدس پر نوپور شرما کے ’توہین آمیز‘ حملے پر عرب دنیا سے بھی متواتر آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ عرب دنیا اپنی خواتین کی توہین برداشت نہیں کر سکتی تو پیغمبر اسلام کی شان اقدس پر حملے کیسے برداشت کر سکتی ہے۔

عرب دنیا اور سرزمین حجاز سے اسلام کے طلوع کے خلاف ہندوتوا کی یہ نفرت کسی ایک دور تک محدود نہیں رہی ہے، اس کا اظہار کبھی تھوڑے وقفے کے ساتھ اور کبھی لمبے وقفے کے بعد ہوتا رہا ہے۔ چونکہ یہ نفرت ہندوتوا کے خمیر میں شامل ہے اس لیے کبھی ختم نہیں ہو سکی۔

اس نوعیت کے چھوٹے موٹے واقعات تو ہندوتوا سوچ کا روزمرہ ہوتے رہتے ہوں گے مگر بڑے واقعات میں ایک واقعہ تقریبا دو صدی قبل پیش آیا۔ جب حقیقت رائے نامی ایک انتہا پسند نے بنت رسول حضرت فاطمتہ الزہرا کی توہین کی۔

یہ تقریبا دو صدیاں پہلے توہین تحریری شکل میں ہوئی تھی آج برطانیہ میں انہی نظریات کا ایک اظہار فلم کی صورت میں ہوا ہے۔ جس پر عرب دنیا سمیت پوری مسلم دنیا میں سخت رد عمل پایا جاتا ہے، اس برطانوی فلم پر تازہ پابندی مراکش حکومت نے لگائی ہے۔

اس حقیقت رائے کو آج ہندوتوا کے ماننے والے ہیرو کے طور پر لیتے ہیں، تقریبا ایک صدی پہلے 1929میں راجپال نامی ایک شخص نے پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا کتاب لکھی۔ راجپال کو بھی عرب اور اسلام دشمنی کے زہر میں بجھی ہوئی ہندوتوا تہذیب میں ہیرو مانا گیا ہے۔

ہندوتوا کے ہاں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہ مذموم سلسلہ جاری ہے۔ ’شیطانی آیات‘ کے مصنف سلمان رشدی کو اسی بھارت کی سرپرستی رہی لیکن بعد ازاں اسے یورپ منتقل کر دیا گیا۔

بنگالی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے بھی توہین کا ارتکاب کیا تو یہ بھی بھارت کی محبوب ٹھہری اور آج تک بھارت کی پناہ میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے لوگوں میں انتہا پسند ہندو سیاسی جماعتوں کے نئے لوگ بھی شامل ہیں اور انہوں نے اس مذموم سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔

جیسا کہ نوپور شرما اور ایل ایس تجاسوی سوریا دونوں انتہا پسندوں کی عمریں چالیس سال سے کم ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ ایک نے پیغمبر اسلام کی توہین کی اور دوسرے نے عرب خواتین کی۔ لیکن قانون کے کٹہرے میں کسی کو نہیں لایا گیا۔

حالیہ برسوں میں ایک اور واقعہ اسی بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ کے ہاتھوں عرب خواتین کی توہین کے حوالے سے ہوا۔ بنگلور سے تعلق رکھنے والے عرب خواتین کے توہین کار ایل ایس تجاسوی سوریا نے اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا تھا۔ لیکن اسے بھی بھارت سرکار نے یا کسی انڈین عدالت نے کوئی سزا نہیں دی۔

وہ ابھی بی جے پی کی طرف سے انڈین پارلیمنٹ کا رکن ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب بات نوپور شرما تک گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں موجود طاقتور عناصر گاہے گاہے اپنے ہندوتوا کی جے بلند کروانے کے لیے اس طرح کے لوگوں کو آگے کر دیتے ہیں۔

مقامی مسلمانوں کے رد عمل کی تو بالکل پروا نہیں کی جاتی البتہ عرب دنیا  کی کسی مضبوط حکومت کی طرف سے رد عمل جائے تو اس کا ظاہری اثر لے لیا جاتا ہے لیکن وہ بھی محض عرب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے۔ 

نوپور شرما کی طرف سے توہین کے حالیہ واقعے پر کیا ہوا مقامی مسلمانوں کے رد عمل کو تو بھارت کی سرکار اور بھارتی میڈیا نے سر اٹھانے ہی نہ دیا تھا۔

لیکن عرب ممالک جن میں سعودی عرب، قطر، کویت، عراق وسلطنت آف عمان  کے علاوہ ایران بھی شامل تھے، ان سب کی طرف سے اور ان کی عوام کی جانب سے غیرت ایمانی کا مظاہرہ ہوا تو بھارت تھوڑا کھسیانا ہو گیا، انہیں رام کرنے کے لیے نوپور شرما کی پارٹی رکنیت معطلی کی جھوٹی سچی کارروائی کی خبریں بھی چلوا دیں۔

مگر اس کے خلاف اس کے باوجود کوئی قانون حرکت میں نہیں آیا کہ اہم مسلم ممالک اور ان کے غیور عوام کی طرف سے سامنے آنے والے رد عمل کو بامعنی اہمیت دینا ثابت ہوتا۔

انہی عرب ممالک کی وجہ سے مقامی مسلمان جو مودی سرکار کے آنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں بلکہ بھارت کے سکیورٹی اہلکاروں کے نشانے پر آ گئے ہیں کہ ان سب نے عرب بھائیوں اور وہاں کی حکومتوں کی طرف سے توہین رسالت پر آواز بلند ہونے کے بعد ہمت کر کے عرب دنیا سے اٹھنے والی آواز کے ساتھ آپنی آواز ملا دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی ’جرم‘ کی سزا کے طور پر اب تک کئی مسلمان انڈین پولیس اور ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں جان سے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں گرفتار ہیں۔ درجنوں کے گھر مسمار کیے جا چکے ہیں کہ یہ لوگ کویت، قطر، سعودی عرب، عراق وایران کی طرف سے سخت رد عمل آنے کے بعد بہادری سے احتجاج کرنے کے لیے نکلنے لگ پڑے تھے۔

ان میں آلہ باد کے مقامی سیاسی رہنما جاوید محمد نہ صرف اہل خانہ سمیت گرفتار کر لیے گئے ہیں بلکہ ان کا گھر بھی مسمار کر دیا گیا ہے۔ سہارنپور میں بھی اسی طرح کے واقعات ہو چکے ہیں۔

اس ظلم اور جبر کی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف روایت کتنی مضبوط اور پرانی ہے اس کا اندازہ اس امر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی آبادی کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے سے روکنے کے لیے تقریبا تیس برسوں سے لگ بھگ سات لاکھ فوج تعینات ہے۔

کشمیر جنت نظیر ان قابض انڈین فوجیوں کی وجہ سے ایک کھلی جیل کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ کرفیو، ناکہ بندی، مواصلاتی تعطل، جیلیں، قید، پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے بچوں کو بطور خاص نشانہ بنانے کی کارروائیاں۔

گولیوں کی صبح وشام نہتے کشمیریوں پر بوچھاڑ، پھانسی کی سزائیں اور جیلوں یا نظر بندی کے دوران بزرگ حریت پسند رہنماؤں کی وفات۔ یہ اب بھارت اور اس کی قابض فوج نے کشمیر کی شناخت بنا دیا یے۔

لیکن اپنے عرب بھائیوں کی طرف سے ’توہین آمیزی‘ کے حالیہ واقعات پر بولنے کی جرات کرنے والے اور سڑکوں پر آنے والے مسلمانوں کے خلاف ان کے گھروں تک کو مسمار کرنے کے واقعات بھارت میں پہلے کم ہی دیکھنے میں آتے تھے۔

اب عرب دنیا کے پڑوس میں جاری گھر مسماری کی روایت بھارت میں بھی چل پڑی ہے۔ یہ اپنے مقامی مسلمانوں کو مزید زیر دباؤ لانے اور کچل کے رکھ دینے کا پیغام ہے یا عرب عوام اور عرب دنیا کے ساتھ خود کو منسلک کرنے اور ان کے راستے کو اختیار کرنے کی سزا؟

عرب دنیا کے سرکردہ ممالک نے نوپور شرما کی طرف سے ’توہین آمیز‘ بیانات پر احتجاج کیا تھا، او آئی سی نے مذمت کی۔ کیا اس کے بعد بھارتی مسلمانوں کے خلاف گولی کا استعمال اور ان کے گھر مسمار کرنا عرب دنیا کو پیغام دینے کی کوشش ہے۔

ان عربوں کے لیے جنہوں نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ تقریبا دو ارب مسلمان جن کے پاس بہترین ورک فورس ہے، بہترین سرزمین اور جغرافیائی پوزیشن ہے اور بہترین معدنی وسائل کے علاوہ بہترین عساکر ہیں۔

 وہ ایک طرف شدت پسند یہودیوں کے ظلم وجبر اور جارحانہ تجاوز کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ہندوتوا کے حامی بالواسطہ طور پر انہی کے مقابل کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ داعی اسلام، پیغمبر اسلام ، اسلام اور اہل اسلام اتفاق سے انتہا پسند یہودیوں اور ہندوتوا کے ماننے والوں دونوں کے لیے قابل برداشت نہیں۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر