ڈراما ’یونہی:‘ زندگی کی طرف بڑھتا قدم

روایات پہ سوال اٹھانے کا مہذب انداز سیکھنا ہو تو ’یونہی‘ دیکھتے رہیے کیوں کہ اس سماجی سائنس کی ہمیں اس وقت اشد ضرورت ہے۔

ڈرامے میں مسلسل اداسی کی لہر ہے جس میں موسیقی درد کو بڑھا دیتی ہے (ہم ٹی وی)

اگر ہم وقت کا ساتھ نہ دیں تو وقت بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اچھا یا برا کچھ بھی ہو جائے، زندگی کو وقت کی طرح آگے بڑھا دینا چاہیے۔

تعلیم اگر شعور دے رہی ہے تو ڈگری پہ ہی فوکس کیوں کیا جا رہا ہے؟ ضرورت نہیں ہے تو گھر کی لڑکی نوکری کیوں نہیں کر سکتی؟ باہر سے آئی کزن اگر بھائی کے ساتھ پینٹ پہن کر جا سکتی ہے تو بہن کے لیے برقع کیوں ضروری ہے؟

بیٹا پسند کی شادی کر سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں کر سکتی؟ بیٹا زندگی جی سکتا ہے بیٹی کیوں نہیں جی سکتی؟ فیصلہ ہی ہے، غلط بھی ہو سکتا ہے گھر کا مرد کر سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں کر سکتی؟ اظہار رائے کا حق مرد کے پاس ہے تو عورت کے پاس کیوں نہیں ہے؟

ایک ہی سماج میں رہتے ہوئے ایک ہی گھر کے اندر اپنے ہی بیٹے اور بیٹی کے لیے الگ الگ اصول ہونے سے معاشرہ کس طرح منفی راہ پہ چل نکلتا ہے اس کے نفسیاتی اور سماجی پہلو کیا کیا ہوتے ہیں اور کس کس پہ ہوتے ہیں۔

انسان کا ظاہر اور باطن زندگی میں کتنی اہمیت رکھتا ہے، ڈراما ’یونہی‘ ایسے ہی ایک روایت پرست خاندان کی کہانی ہے جو مکمل طور پہ اپنی خاندانی روایات پہ کار بند رہتا ہے۔ نامناسب تو دور کی بات ہے، عام سی کوئی جدید روایت بھی نہیں اپناتا جس کی وجہ سے سارا گھرانہ نہ صرف دنیا کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے بلکہ ان کے بچے بھی ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور بزرگ بھی۔ دونوں نارمل انسان کی طرح نہ جی سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی کیفیات کا اظہار کر سکتے ہیں۔

اس مرض کی سب سے اہم علامت جدیدیت سے نفرت کرنا ہے اور نفرت ایک بوجھ ہے۔ منطقی سی بات ہے کہ ایک موبائل جو استعمال کیا جا رہا ہے وہ بھی جدیدیت ہے تو اگر ایک رشتے سے نکل کر دوسرے میں احسن طریقے سے داخل ہونے کی گجائش موجود ہے تو اس کو نہیں اپنایا جا رہا۔

ایک کزن کی منگنی کیا ٹوٹتی ہے لڑکی دل کو ایسا لگاتی ہے کہ مر ہی جاتی ہے۔ موت برحق ہے مگر اس کا نقطۂ عروج و اختتام ہی جب کزن صاحب بنا دیے جائیں گے تو یہی ذہنی حالت ہو گی۔ خورشید آپا کا انتقال کیا ہوا چھوٹی بہن کو بھی طلاق ہو گئی، کیونکہ روایت نمائی تو یہی ہے، خاندان ایک جیسا ہو گا یعنی خراب چال چلن والا۔

بس اس کے بعد سب رشتہ داریاں ختم ہوئیں اور کوئی 27 برس بعد خورشید آپا کے تایا زاد منگیتر نوید اور ان کی بیٹی کنیز فاطمہ پاکستان آتے ہیں تو سب کی نظر میں وہی ہر طرح کے جمود کے قصور وار ہیں۔ اس گھر پہ ہر طرح کی نحوست انہی کی وجہ سے جیسے اتری ہو اس لیے ہر طرح کی نفرت بھی ان کو اوران کی بیٹی کنیز فاطمہ کو جھیلنی پڑتی ہے۔

یہ وہ ذہن سازی ہے جس پہ ایک ڈرامائی احتجاج دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی زندگی آگے بڑھا لی ہے تو آپ بھی اپنی اولاد کی زندگی کو نیا رستہ دیجیے۔ تمام عمر ایک شخص کے غم میں مرنے کے لیے اپنی بیٹیوں کو قید تنہائی مت دیجیے کہ موت ان کی بارات بنے۔

فطرت جو کرتی ہے اچھا کرتی ہے، کا یقین رکھتے ہوئے اپنے پہ سے بھی یہ بوجھ اور ملال اتار دیں اور اپنے سے منسلک رشتوں پہ سے بھی، کہ آسانیاں بونے والوں کو آسانیاں ہی ملتی ہیں۔

ڈرامے میں مسلسل اداسی کی لہر ہے جس میں موسیقی درد کو بڑھا دیتی ہے۔

اس کیفیت کو بھی ڈرامے کے پیغام امید کی طرح خوشی اور غم کی تازہ اور یادوں کی ہواؤں سے مزین ہونا چاہیے تھا۔

پرانی حویلیوں والی ناسٹیلجیک مہک ڈرامے کو بوجھل کر رہی ہے لیکن اس میں کنیز فاطمہ اور اس کے والد کے شاعر دوست زلفی نے زندگی سے جڑی ہنستی مسکراتی ایک نئی کہانی کا آغاز کیا ہے۔

کنیز فاطمہ کا کردار سماج میں عورت اور زلفی کا مردکی سماجی بغاوت کے الم بردار بنے ہیں۔ مکالمے بہت جگہ شاعرانہ ہو جاتے ہیں ظاہر ہے جب زندگی پرانی حویلیوں جیسی ہو گی تو یہی ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوید اور خورشید کی ناکام محبت کے بعد داؤد اور کنیز فاطمہ کی ایک تازہ کزن محبت سے خاندان کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ خاندان نہیں سماج میں بکھرے اعتماد کو بھی بحال کرنے کی سعی ہے۔ وہ سوال جو ہر روایتی لڑکی کے ذہن میں کسی نہ کسی وقت اٹھتے ہیں ان کو امریکن کزن کے کردار سے نرمی سے اور منطقی انداز سے اٹھا یا گیا ہے کہ بغاوت نہیں لگ رہے، حق لگ رہے ہیں۔

کنیز فاطمہ کی اپنی کہانی تو وہ خود سب کو بتا دیتی ہے مگر اس گھر کی سب کہانیاں بھی اس کے توسط سے بحران کا شکار ہوتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچیں گی۔

زلفی اور کنیز فاطمہ کی دوستی سے ڈرامے میں زندگی سے دوستی کی مہک اٹھتی ہے۔ دادا جی کے کردار سے یہ مکالمے کہلوانا کہ ’نفرت اور غصہ آگ ہیں ان کا بوجھ انسان کو بوجھل کر دیتا ہے۔‘ اپنے بھتیجے کومعاف کر دینے سے ان کو اپنا آپ ہلکا لگ رہا ہے۔ یہ آسان زندگی کے عاجز سے فلسفے ہیں جس کو انسان انا کے ستون پہ اٹھائے پھرتا خود بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی خود خراب کرتا ہے، ساتھ دوسروں کی زندگی بھی بنجر کر دیتا ہے۔

ڈرامے کی کاسٹ بہت عمدہ ہے، ہر کردار نگینے کی طرح فٹ ہے۔ لوکیشن کہانی کے عین مطابق ہے۔ کراچی کا قدیم اور روایتی منظر سکرین سے ناظر تک پوری کہانی سنا دیتا ہے۔

روایات پہ سوال اٹھانے کا مہذب انداز سیکھنا ہو تو ’یونہی‘ دیکھتے رہیے۔ ’ہم ٹی وی‘ سے ہر ہفتے ذہن پہ دستک دیتا ہے، البتہ یہاں دل سے کام کم ہی لیا گیا ہے، دماغ کا بہترین استعمال کیا گیا ہے۔

اس سماجی سائنس اور کیمسٹری کی ہمیں اس وقت اشد ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ