بسنت صرف ایک تہوار نہیں تھا، یہ لاہور کی پہچان، خوشیوں کا موسم اور ایک ایسی سرگرمی تھی، جس نے کبھی ہزاروں خاندانوں کی معیشت کو سہارا دیا ہوا تھا، لیکن جب حادثات کے باعث اس پر پابندی لگی تو جہاں خوشیاں رخصت ہوئیں، وہیں ایک پوری فیسٹیول اکانومی بھی ختم ہو گئی۔
آج جب بسنت کی ممکنہ بحالی پر بات ہو رہی ہے، تو سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا اس سے واقعی عام آدمی کو روزگار ملے گا؟
بسنت کا سب سے بڑا فائدہ اس طبقے کو ہوتا ہے، جو سال بھر ہوم بیسڈ ورک کرتا ہے۔ یہ کاریگر کاغذ، بانس، گوند اور رنگوں سے وہ صنعت چلاتے ہیں جو موسمِ بہار سے پہلے زندہ ہو جاتی ہیں۔ ڈور تیار کرنے والی خواتین کو ہفتوں کا مسلسل روزگار ملتا ہے، نوجوان لڑکے پیکنگ اور سپلائی کا کام کرتے ہیں۔
یہ طبقہ تعلیم اور وسائل کی کمی کے باعث کسی بڑی صنعت میں کام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ بسنت ان کے لیے مختصر مگر اہم معاشی سہارا بن سکتی ہے۔
بسنت پر پابندی سے نہ صرف لاہور کی ثقافت متاثر ہوئی بلکہ اچھو جیسے لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے تھے۔ یہ شعبہ صنعت کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔
آصف عرف اچھو بھاٹی گیٹ کے رہائشی ہیں۔ 2005 میں پابندی لگنے سے پہلے یہ پتنگیں اور ڈوریں بنانے کا کام کرتے تھے۔ ان کی چار بیٹیاں، ایک بیٹا، بیوی اور محلے کی خواتین گھر میں بیٹھ کر پتنگیں بناتی تھیں۔ کپ، سلارہ، تیرہ، گلہار، چگٹھی، ساڑھ پانا یا شسترو جیسی مہنگی پتنگیں اور آٹھ چین، دو نمبر، تلوار مارکہ جیسی مہنگی ڈوریں ان کے روزگار کا ذریعہ تھیں، لیکن پابندی لگنے کے بعد تمام خواتین بے روزگار ہو گئیں اور اچھو کھلونے بیچ کر اپنا گزارا کر رہا ہے۔
اچھو کا کہنا ہے کہ’20 سال سے کام چھوڑا ہوا ہے۔ میں اب بیمار رہتا ہوں۔ لوگ پتنگوں اور ڈور کا آرڈر دینے آ رہے ہیں۔ میری بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ میں اپنے بیٹے، بہو اور پوتیوں کو کام سکھا رہا ہوں۔ کام زیادہ ہے اور ماہر لوگوں کی کمی ہو گئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر سرکار نے بسنت پر دوبارہ پابندی نہ لگائی تو میرے گھر کی خوشحالی لوٹ سکتی ہے اور میرے پوتے پوتیاں بہتر معاشی زندگی گزار سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بسنت کی بحالی سے کپڑوں، لائٹس اور ساؤنڈ سسٹم کی دکانوں کا کاروبار بھی تیز ہو سکتا ہے۔ کھانے پینے والوں، خاص طور پر ریڑھی والوں کی آمدن میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک رات کی بسنت کئی دکانداروں اور ریڑھی والوں کے لیے مہینے بھر کا منافع لانے کا سبب بن سکتی ہے۔
بسنت کے دوران نان بائیوں کی دکانیوں کی سیل بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے کیونکہ بسنت میں قیمے والے نان ہاٹ فیورٹ سمجھے جاتے ہیں۔
پتنگ بازی کی صنعت موجودہ بجلی کے بحران میں بھی ترقی کر سکتی ہے کیونکہ اس کا انحصار بجلی پر نہیں ہوتا۔ تنی لگانے والے، تن پوش کرنے والے، ڈور لگانے والے اور چرخہ اور پنی لپیٹنے والے مزدوروں کو بھی باقاعدہ روزگار ملے گا۔
لاہور میں بسنت ملکی سیاحوں کے لیے ایک کشش کا باعث ہے۔ ہوٹل، ٹرانسپورٹ، فوٹوگرافرز، ایونٹ مینیجرز، سب کے پاس کام آتا ہے۔
اگر حکومت بسنت کو محفوظ شکل میں پروموٹ کرے تو یہ ایک منی ٹوررازم ایونٹ بن سکتا ہے۔
محفوظ بسنت نہ صرف شہر کی شناخت واپس لوٹائے گی بلکہ معاشی فائدہ بھی دے گی۔
اگر حکومت پتنگ، ڈور اور ایونٹس کی رجسٹریشن، فیسٹول پرمٹ، فیسٹیول مارکیٹس جیسے نظام متعارف کروائے تو وہ کروڑوں روپے کا ٹیکس اور فیسیں جمع کر سکتی ہے۔
دنیا بھر میں تہوار حکومت کی آمدن بڑھاتے ہیں۔ پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے۔
بسنت ایک قومی تہوار ہے۔ گزرے دنوں میں لاہور، امرتسر اور قصور تین بڑے شہر تھے جہاں پتنگ بازی کے ساتھ بسنت پورے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی تھی۔
آزادی سے قبل سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گورداسپور تین شہر ایسے تھے جہاں بسنت کی تقریبات اہمیت رکھتی تھیں، لیکن آج بھی اس کا مرکز لاہور سمجھا جاتا ہے۔
بسنت کے لیے والڈ سٹی کی چھتیں سب سے زیادہ مہنگی بیچی جا سکتی ہیں۔ ان چھتوں کے مالک متوسط یا غریب طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ مثلاً موچی، بھاٹی، لوہاری، ٹکسالی، یکی گیٹ کی چھتیں ایک رات کے لیے 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک بکتی تھیں۔ شاہ عالم کے کرائے زیادہ تھے جو کہ ایک لاکھ سے چار لاکھ کے درمیان ہوتے تھے کیونکہ شاہ عالم کی چھتیں بڑی تھیں اور پتنگ باز بھی زیادہ ماہر تھے۔
ہیرا منڈی کی چھتیں 24 گھنٹوں کے لیے سات لاکھ روپے کرائے پر دی جاتی تھیں۔ ہوٹلوں کی چھتیں 15 سے 20 لاکھ روپے ایک رات کے لیے بکتی تھیں۔
حتی کہ سرکاری عمارتوں کی چھتیں بھی کرائے پر چڑھ جاتی تھیں۔
بسنت بحالی کے بعد آج کے ریٹ کئی گنا زیادہ ہوں گے، جس سے عوام کی معاشی حالت بہتر ہو گی اور تین دن کی کمائی سے وہ کئی مہینے گھر بیٹھ کر کھا سکیں گے۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑے بڑے ہوٹلوں کی چھتیں بک کروا کر غیر ملکی سفیروں کو دعوت پر بلاتی تھیں۔ بسنت ایک خاص اہمیت رکھتی تھی اور شہر کا سب سے بڑا تہوار ہوا کرتا تھا، جس میں اندرون اور بیرون ملک سے لوگ شہر کا رخ کیا کرتے تھے۔ ٹور آپریٹر ز، ویزہ اور ٹکٹس کا کاروبار بڑھ جاتا تھا۔ یہ معاشی ایکٹیویٹی اب دوبارہ بحال ہو سکے گی۔
بسنت صرف تفریح نہیں۔ یہ غریب طبقے کے لیے امید اور بند صنعتوں کی بحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ جب آسمان رنگین ہوتا ہے تو صرف پتنگیں نہیں اڑتیں، بلکہ ہزاروں گھروں کے چولہے بھی جلتے ہیں۔
آل پاکستان کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خواجہ ندیم سعید وائیں کے مطابق جب بسنت پر پابندی لگائی گئی تو لاہور اور اس کے نواحی علاقوں گجرانوالہ اور قصور میں تقریباً دو لاکھ لوگوں کا روزگار اس سے جڑا تھا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف لاہور میں بسنت کم از کم دو سے اڑھائی لاکھ افراد کو عارضی روزگار دے سکتی ہے، جبکہ پنجاب بھر میں یہ تعداد آٹھ سے 10 لاکھ تک جا سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
