پنجاب: بسنت پر پابندی کے باوجود پتنگوں کی آن لائن خرید و فروخت

پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس سال بھی پتنگ بازی پر سختی سے پابندی ہو گی تاہم آن لائن نہ صرف بسنت منانے کا اہتمام ہو رہا ہے بلکہ خطرناک ڈوریں بھی فروخت ہو رہی ہیں۔

پتنگ بازی پر پابندی لگے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے (اے ایف پی)

بہار کی آمد پر پنجاب میں منایا جانے والا ثقافتی تہوار بسنت کئی سالوں سے پھیکا ہے۔ پتنگ بازی میں دھاتی اور کیمیکل ڈور کے استعمال کی وجہ سے ہلاکتوں کی بڑھتی شرح کے باعث حکومت نے اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

اس سال بھی صوبائی حکومت نے پتنگ بازی پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور حکومت کے مطابق یہ تب تک رہے گی جب تک خطرناک دھاتی اور کیمیکل ڈور کی دستیابی ختم نہیں ہو جاتی۔

تاہم جہاں پابندی سے پتنگ بازی سے جڑے افراد کے کاروبار ختم ہوئے ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر کئی ایسے پیچ ہیں جہاں خطرناک ڈوروں کی فروخت کھلے عام ہو رہی ہے اور صارفین کو پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے پتنگ بازی کی تلقین کی جا رہی ہے۔

پتنگ بازی پر پابندی کے حوالے سے پنجاب حکومت کے ترجمان مسرت جمشید چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سال بھی اس کی اجازت بالکل نہیں دی جائے گی۔ ’اجازت تب تک نہیں دی جائے گی جب تک ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہو جاتا کہ پتنگ بازی کسی کی جان نہیں لے گی اور اس سے کسی بھی قسم کا کوئی افسوس ناک واقعہ پیش نہیں آئے گا۔‘

مسرت جمشید چیمہ کے بقول: ’بسنت پر سیاحت کے لیے ہم بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن دھاتی اور کیمیکل ڈور کی دستیابی جب تک صفر پر نہیں ہوتی تب تک بسنت یا پتنگ بازی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشنز سے اس حوالے سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

خطرناک ڈوروں پر پابندی

اپنے زمانے کے مشہور پتنگ اور ڈور فروش 60 سالہ محمد صدیق کی اندرون شہر موچی گیٹ لاہور میں ’پاپا گڈی فروش‘ کے نام سے دکان ہوا کرتی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملک بھر سے لوگ ان کی دکان پر پتنگیں اور ڈوریں خریدنے آتے تھے مگر جب سے حکومت نے بسنت پر پابندی لگائی ہے انہوں نے اپنا کاروبار بند کرکے دکان کرائے پر چڑھا دی۔

محمد صدیق نے بتایا کہ وہ بھی دھاتی ڈور کے خاتمے کے لیے قانون سازی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے حق میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پرانے پتنگ فروش ہونے کے باعث حکومت ان سے ہر سال پتنگوں پر رائے مانگتی ہے۔ ’ہم نے انہیں کہا ہے کہ ڈور میں نائلون کے دھاگے کا استعمال بند کر کے سوتی دھاگہ استعمال کیا جائے جس میں تین، چھ اور زیادہ سے زیادہ نو تار کا دھاگہ استعمال کیا جائے۔ اس پر روایتی مانجھا لگایا جائے جو چاولوں کے آٹے اور شیشہ پاؤڈر کو ملا کر بنتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا جب 1965 میں پہلی مرتبہ برطانیہ سے نائلون کا دھاگہ پاکستان آیا اور اس پر شیشہ پاؤڈر بھی چڑھ گیا، مانجھا بھی لگ گیا تو تب ہی ان کے مرحوم والد نے اس ڈور کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اس ڈور سے پتنگ بازی نہیں ہو سکتی، یہ خطرناک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے تو نائلون کے دھاگے پر کیمیکل چڑھایا جاتا تھا مگر اب پشاور سے ایک خاص ڈور سمگل ہو کر آتی ہے، جس پر کچھ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس ڈور میں لچک بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ ٹوٹتی نہیں اور اس کی کاٹ بہت زیادہ ہوتی ہے۔

’مسئلہ یہ ہے کہ حکومت قانون سازی کے باوجود اس پر عمل درآمد کروانے سے قاصر ہے۔ عدالت بسنت کی اجازت دینے کے لیے صوبائی انتظامیہ سے ضمانت مانگتی ہے کہ کوئی ایک بھی حادثہ نہیں ہوگا لیکن یہ ضمانت حکومت دے نہیں پاتی۔‘

انہوں نے کہا کہ لاہور ایک زمانے میں پتنگ بازی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، یہاں کائٹ فلائر ایسوسی ایشن اور کائٹ سیلر ایسوسی ایشن ہوا کرتی تھیں مگر وہ ختم ہوگئیں اب اس میں غیر پیشہ ور لوگ آ گئے ہیں جن کا مقصد منافع کمانا ہے۔

صدیق نے کہا کہ حکومت کی پابندی کے بعد انہوں نے رضاکارانہ طور پر پتنگ بازی سے منسلک کاروبار کو چھوڑ دیا تھا مگر ہر فورم پر اس کی حمایت ضرور جاری رکھی کیونکہ یہ ثقافت کا حصہ اور اسے ایک خاص لائحہ عمل کے تحت بحال کیا جا سکتا ہے۔  

ڈوریں کہاں سے آتی ہیں؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ ڈوریں بنتی اور بکتی ہیں اور وہاں سے دیگر شہروں میں جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ وہ ڈوریں بھی تو کہیں بن رہی ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ چاہے تو ان سب پر کریک ڈاؤن کر کے انہیں پکڑ سکتی ہے۔‘

سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے بھی پتنگ بازی، پتنگ سازی اور پتنگ فروشی کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔ ان کے حکم کے مطابق پتنگ بازی کی شکایت جس بھی علاقے سے آئی وہاں کے متعلقہ ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جبکہ ڈولفن اور پیرو فورس کو بھی دوران پٹرولنگ مانیٹرنگ کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم اس سے بھی اہم یہ کہ پتنگ بازوں کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ بھی کی جائے اور سوشل میڈیا پر آن لائن خریدوفروخت کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پتنگیں بنانے والوں، ہول سیل ڈیلرز اور تندی ڈور ایکسپورٹرز کے خلاف پولیس کی عدم برداشت کی پالیسی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی سی پی او لاہور کے دفتر کے اعداد وشمار کے مطابق صرف جنوری کے مہینے میں پتنگ بازی پر 41 مقدمات درج ہوئے جبکہ کریک ڈاؤن کے دوران 43 ملزمان گرفتار کیے گئے، جن کے قبضے سے 55 چرخیاں اور 1500 کے قریب پتنگیں برآمد ہوئیں۔

گذشتہ برس بچوں سمیت کئی لوگ گلے پر ڈور پھرنے سے نہ صرف شدید زخمی ہوئے بلکہ بیشتر کی جان چلی گئی۔

خریدوفروخت جاری

پتنگ بازی پر پابندی لگے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن خطرناک ڈور کسی نہ کسی کی جان لیتی رہتی ہے یا شدید زخمی کر جاتی ہے، جس کا مقدمہ نامعلوم افراد پر درج ہو جاتا ہے۔

پولیس نے گذشتہ برس بھی سوشل میڈیا پر پتنگوں اور ڈوروں کی خریدو فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ اس کے باوجود اگر آپ فیس بک پر دیکھیں تو درجنوں ایسے گروپس ملیں گے جو خاص طور پر پتنگ بازی کے شوقین افراد کے لیے بنے ہیں اور ان کے فالورز کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ان گروپس کے ایڈمنز سے بھی رابطے کی کوشش کی مگر ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ان فیس بک گروپس میں سے کچھ میں انڈپینڈنٹ اردو کے مشاہدے کے مطابق پتنگوں کے ساتھ ساتھ دھاتی اور کیمیکل ڈوروں کا کھلے عام کاروبار جاری ہے۔ یہاں تک کہ 11 اور 12 فروری کو پنجاب کے مختلف شہروں میں پابندی کے باوجود بسنت منانے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔

ان گروپس میں پولیس اور حکومتی اقدامات کی دھجیاں بھی غیر مناسب زبان میں یا ذزاق کے طور پر اڑائی جا رہی ہیں۔ ہم نے انہیں گروپس میں سے ایک ڈور فروش کا نمبر لیا، جنہوں نے کیمیکل ڈور خریدنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو رابطہ کرنے کا پیغام دیا ہوا تھا۔

ہم نے انہیں گاہک بن کر فون کیا۔ ان ڈور فروش کا تعلق ہری پور سے ہے۔ ہم نے ان سے ڈور کی ہوم ڈیلیوری کا پوچھا تو وہ بولے: ’ہوم ڈیلیوری کہاں کروانی ہے؟‘ ہم نے بتایا راولپنڈی میں تو ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں بہت زیادہ سختی ہے اور ہمیں خود ان کی دکان پر آنا پڑے گا۔

ڈور کی اقسام سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈور فروش نے بتایا: ’میرے پاس ہر قسم کی کیمیکل ڈور ہے، جس کا ریٹ 700 سے 1200 روپے ہے جبکہ وزن میں ایک کلو سے 700 گرام تک مل جائے گی اور 900 گرام ہزار روپے میں مل جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس روایتی ڈور نہیں اور وہ کیمیکل ڈور کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر ہم دکان سے ڈور لے کر جائیں گے تو راستے میں پکڑے تو نہیں جائیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہری پور میں تو کوئی چیکنگ نہیں لیکن راولپنڈی کی ضمانت وہ نہیں دے سکتے کیونکہ وہاں سختی ہے۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ان سے ہوم ڈیلیوری کرواتے ہیں تو تین ہزار روپے ڈیلوری چارجز ہوں گے۔ ڈور کہاں سے آتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پشاور سے آتی ہے اس کے علاوہ وہ خود بھی بناتے ہیں البتہ فیصل آباد سے بھی ڈور آتی ہے مگر اس کا میعار اچھا نہیں۔

اس ساری صورت حال کے بارے میں ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ کہتی ہیں: ’گذشتہ برس بھی ہم نے دھاتی ڈور بنانے اور بیچنے والوں پر سخت کریک ڈاؤن کیا تھا۔ بہت سارے دھاتی ڈور بنانے والے پکڑے تھے۔

’اس وقت بھی ہم اسی پالیسی کے تحت کام کر رہے ہیں، جہاں جہاں سے اطلاع مل رہی ہے وہاں وہاں کریک ڈاؤن ہوگا اور ان لوگوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آن لائن ڈور کا کاروبار کرنے والوں کو بھی حکومت مانیٹر کر رہی ہے۔ ’اس کے علاوہ دیگر شہروں میں بننے والی اور وہاں سے  سمگل ہو کر آنے والی قاتل ڈور کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان  کافی سنجیدہ ہیں اور یقیناً آپ کو عنقریب نظر آئے گا کہ دوسرے علاقوں میں بھی جو لوگ کیمیکل ڈور بیچ رہے ہیں ان کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہوگا۔‘

مسرت چیمہ نے بتایا کہ آنے والے برسوں کے لیے بھی پنجاب حکومت ایک ایسی پالیسی تیار کر رہی ہے کہ بسنت محفوظ طریقے سے منائی جا سکے اور اس میں روایتی ڈور کا استعمال ہو، روایتی پتنگ بازی ہو، عوام آئے اور لطف اندوز ہو نہ کہ یہ ایک خونی تہوار بن جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان