پتنگ بازی کی شکایت پر متعلقہ ایس ایچ او گرفتار ہوگا: کراچی پولیس چیف

کراچی پولیس چیف غلام نبی نے حالیہ واقعات کے بعد شہر میں پتنگ بازی پر پابندی لگاتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اگر شہر میں پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور سے کوئی ہلاک ہوا تو ملزمان پر قتل کا مقدمہ درج ہوگا۔

کراچی پولیس کے ترجمان احمد علی شاہ کی جانب سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اب تک شہر میں پتنگ بازی کے خلاف 56 مقدمات درج ہوچکے ہیں اور 80 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے(تصویر: سندھ پولیس)

سندھ بھر میں لاک ڈاؤن کے باوجود آج کل دھوپ اور گرمی کا زور کم ہوتے ہی شام میں نوجوان چھتوں پر چرخیوں میں لپٹی دھاتی ڈور سے پیچ لڑاتے نظر آتے ہیں اور آسمان پر رنگ برنگی پتنگیں لہرا رہی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب شہریوں کے اسی شوق نے حال ہی میں کراچی کے علاقے ناظم آباد میں ایک بچے کی جان بھی لے لی، جس کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی پولیس چیف نے پتنگ بازی پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر شہر میں کہیں بھی اس کی شکایات ملیں تو علاقے کے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی ہوگی۔

کراچی کے علاقے بفرزون کے رہائشی سید علی بھی ایک ایسے ہی نوجوان ہیں، جو روز شام کو پتنگ بازی کا شوق پورا کرتے نظر آتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا لاک ڈاؤن میں انہیں پتنگیں آسانی سے دستیاب تھیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ انہیں پتنگیں اور ڈور خریدنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور پچھلے سال کی طرح اس سال بھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ افطار سے پہلے پتنگ اڑانے کا مقابلہ کرتے ہیں۔

پتنگ بازی کے باعث اب تک کراچی میں کئی لوگوں کے زخمی اور ایک معصوم بچے کی ہلاکت کے واقعے کے باوجود بھی اس مشغلے کو پسند کرنے کی وجہ پوچھنے پر علی نے بتایا: ’اس کے علاوہ اور کیا کریں، لاک ڈاؤن میں ویسے بھی کچھ کرنے کو نہیں ہے۔ ہم محفوظ طریقے سے پتنگ اڑاتے ہیں، مانجھا استعمال نہیں کرتے۔ اگر باقی سب بھی یہی کریں گے تو کسی کو تکلیف نہیں ہوگی۔ کم از کم لاک ڈاؤن کے دوران تو ہمیں پتنگ اڑانے دیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہریوں کے اس شوق نے ناظم آباد نمبر دو کے ایک خاندان پر اس وقت بجلیاں گرائیں، جب ان کے چار سالہ بیٹے سفیان بن سکندر کی ہلاکت گلے پر پتنگ کی ڈور پھرنے سے ہوئی۔ اس واقعے کی ایف آئی آر گلبہار تھانے میں درج کی گئی جبکہ دوملزمان، جن میں باپ بیٹا شامل ہیں، کو فوری طور پر گرفتار کیا گیا۔

بچے کے والد سکندر کے مطابق اگر ہسپتال انتظامیہ قانونی کارروائی کے لیے پولیس کا انتظار نہ کرتی تو ان کے بیٹے کی جان بچائی جاسکتی تھی جبکہ پولیس حکام کے مطابق بچے کی موت ہسپتال آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔

دوسری جانب کراچی پولیس کے ترجمان احمد علی شاہ کی جانب سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اب تک شہر میں پتنگ بازی کے خلاف 56 مقدمات درج ہوچکے ہیں اور 80 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

گذشتہ روز ہی لیاقت آباد تھانے کی حدود میں پولیس نے تین پتنگ فروش بھائیوں کو گرفتار کیا ہے جو اپنے گھر میں چھپ کر پتنگیں بنانے اور ان کی فروخت کا کام کر رہے تھے۔ پولیس نے ان  کے گھر سے 100 سے زائد پتنگیں، چرخیاں اور دھاتی ڈوریں بھی برآمد کی ہیں۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ڈسٹرکٹ سینٹرل محمدعارف اسلم راؤ کے مطابق یہ ملزمان اب تک 13 ہزار روپے کی پتنگیں فروخت کر چکے تھے اور یہ رقم ان کے پاس سے برآمد کر لی گئی ہے۔

لیاقت آباد تھانے کی حدود میں تین پتنگ فروش بھائیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جو اپنے گھر میں چھپ کر پتنگیں بنانے اور ان کی فروخت کا کام کر رہے تھے (تصویر: سندھ پولیس)


کراچی پولیس چیف غلام نبی نے ان واقعات کے بعد شہر میں پتنگ بازی پر پابندی لگا دی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ اگر شہر میں پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور سے کوئی ہلاک ہوا تو ملزمان پر قتل کا مقدمہ درج ہوگا۔

دوسری جانب تمام ایس ایچ اوز کو پتنگ بازی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

کراچی پولیس چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر شہر میں کہیں بھی پتنگ بازی کی شکایات ملیں تو علاقے کے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی ہوگی۔

چار سالہ سفیان کی ہلاکت کے بعد ایس ایچ او گلبہار منصور علی خان کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔

 تاہم اب بھی کراچی کے مختلف علاقوں میں نہ صرف پتنگ اور دھاتی ڈور آسانی سے دستیاب ہے بلکہ کئی مقدمات اور پابندیوں کے باوجود بھی لوگ اس شوق سے باز نہیں آرہے۔

وہیں دوسری جانب بسنت کے شہر پنجاب میں پتنگ بازی پر انتہائی سخت پابندی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ جس علاقے میں پتنگ بازی ہوئی وہاں کے افسران ذمہ دار ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان