خیبر پختونخوا حکومت نے نگران دور حکومت میں سرکاری ہسپتالوں کے لیے ادویات کی خریداری میں خرد برد کے الزامات ثابت ہونے پر سابق صوبائی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شوکت علی سمیت 10 ملازمین کی برطرفی کے احکامات جاری کیے ہیں۔
گذشتہ روز وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کی جانب سے دستخط شدہ شوکار نوٹسز میں لکھا گیا ہے کہ یہ ملازمین نگران دور میں ادویات کی خریداری میں تقریباً ایک ارب 70 کروڑ روپوں کی خرد برد کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
شوکاز نوٹسز کے مطابق: ’خیبر پختونخوا گورنمنٹ سرونٹس ایکٹ 2011 کے تحت وزیر اعلٰی کے پاس اختیار ہے کہ وہ شو کاز نوٹس جاری کریں، اور اس کا جواب 10 دنوں کے اندر دیا جائے ورنہ آپ کو برطرف تصور کیا جائے گا۔‘
یہ شوکاز نوٹس تمام ملازمین کو جاری کیا گیا جن میں گریڈ 17 سے گریڈ 20 کے اعلٰی افسران بھی شامل ہیں جو اس سابق نگران دور میں محکمہ صحت کے اعلٰی عہدوں پر فائز تھے۔
ان ملازمین میں گریڈ 20 کے ملازم اور سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شوکت علی، گریڈ 19 کے سرکاری افسر اور سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر سراج محمد، گریڈ 18 کے محکمہ صحت کے ملازم اور سابق ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر لوئر دیر ڈاکٹر ارشاد احمد روغانی، گریڈ 17 کے ملازم خرم شہزاد، اور ضیااللہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ گریڈ 16 اور لوئر گریڈ کے ملازمین بھی ہیں جو اس وقت مختلف عہدوں پر فائز تھے۔ ان ملازمین میں نو ملازمین میں سے ہر ایک سے تقریباً 17 کروڑ ریکوری کی جائے گی۔
ادویات کا سکینڈل کیا ہے؟
یہ کہانی گذشتہ سال مئی میں صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران سامنے آئی جب صوبائی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر شوکت علی کو اپنے عہدے سے ہٹایا گیا۔
ڈاکٹر شوکت علی جنوری 2023 میں پی ٹی آئی کی دور حکومت میں پہلے ریجنل ڈائریکٹر ملاکنڈ ریجن بنے، اس کے بعد وہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز خیبر پختونخوا تعینات کیے گئے۔
نگران دور حکومت کے بعد جب پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی، تو ان پر اس وقت یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بنوں ہسپتال میں ایک خاتون کی غیرقانونی ٹرانسفر کرنے کے لیے رشوت لی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد ڈاکٹر شوکت علی نے سروسز ٹریبیونل اور پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر کے تمام الزامات کی تردید کی اور سروس ٹریبیونل کو بتایا کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ رشوت لینے کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔
اکتوبر 2024 میں سروسز ٹریبیونل کی جانب سے ڈاکٹر شوکت علی کو اپنے عہدے پر بحال کرنے کا کہا گیا، تاہم فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ اگر ان کی جگہ کوئی دوسرا ڈی جی تعینات نہیں ہوا ہے، تو ان کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
اس وقت محکمہ صحت نے بتایا تھا کہ چونکہ ٹریبیونل کے فیصلے میں واضح لکھا گیا ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور افسر تعینات نہیں ہوا، جبکہ ان کی جگہ دوسرا ڈی جی پہلے سے تعینات ہے تو اسی وجہ سے ڈاکٹر شوکت اپنے عہدے پر بحال نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر شوکت علی کو خیبر پختونخوا کے نگران دور حکومت میں 2023 میں ڈی جی ہیلتھ سروسز تعینات کیا گیا تھا اور اس سے پہلے وہ لوئر دیر کے ضلعی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے۔
اس کے بعد جنوری 2024 میں ڈاکٹر شوکت علی پر لوئر دیر کے تیمرگرہ میڈیکل کالج کے لیے آلات خریدنے میں خرد برد کا الزام عائد کیا گیا تھا اور محکمہ اینٹی کرپشن نے تحققیات کا آغاز کیا تھا۔
تاہم اس وقت پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جس کے بعد عدالت نے محکمہ اینٹی کرپشن کو ڈاکٹر شوکت علی کے خلاف تحقیقات سے روک دیا تھا۔
عدالت فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس سے پہلے نیشنل اکاؤنٹیبیلٹی بیورو (نیب) نے بھی اسی قسم کے مقدمے میں تحققیات کے بعد کیس کو بند کر دیا تھا۔
ادویات خریداری کیس میں خرد برد
پی ٹی آئی حکومت نے ستمبر 2024 میں مشیر برائے اینٹی کرپشن مصدق عباسی کی سربراہی میں 2023-24 میں نگران دور حکومت میں سرکاری ہسپتالوں کے لے تقریباً چار ارب 40 کروڑ روپے کی ادویات میں خرد برد کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کی تھی۔
کمیٹی نے اس وقت کے نگران مشیر صحت سمیت ڈائرکٹر جنرل ہیلتھ شوکت علی اور 11 دیگر محکمہ صحت کے ملازمین کو سوال نامے گئے بھیجے، جس میں سرجیکل گلوز، کنڈوم، گاؤن، اور دیگر ادویات کی خریداری میں خرد برد کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
وزیر اعلٰی ہاؤس سے جاری گذشتہ روز بیان میں لکھا گیا ہے کہ چار ارب روپے سے زائد خریداری میں تقریباً ایک ارب 70 کروڑ روپے کی خرد برد ثابت ہونے کے بعد 10 ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے۔
وزیر اعلٰی ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق: ’ادویات کی کمپنیوں نے ایک ارب 20 کروڑ کی رقم وصول کی لیکن ادویات فراہم نہیں کیں اور حکومت کو صرف 20 کروڑ روپے کی ادویات فراہم کی گئیں، جو کل خریداری کا ایک معمولی حصہ ہے۔‘
اس سارے معاملے پر ڈاکٹر شوکت علی کا موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے انہیں پیغام بھیجا لیکن اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم ڈاکٹر شوکت علی سمیت اس وقت کے ملازمین جن کو اب برطرف کیا گیا ہے، نے عدالت میں موقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنائے گئے ہیں۔
برطرف ملازمین میں سے ایک سینیئر افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ بطور سرکاری ملازم وہ اس پر میڈیا میں بات نہیں کر سکتے لیکن وزیر اعلٰی کے شوکاز نوٹس کا جواب دیں گے جس میں اصل تصویر سامنے آجائے گی۔