پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’فریڈم نیٹ ورک‘ کی سالانہ ’فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ میڈیا فریڈم‘ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک برس کے دوران 82 صحافیوں اور دیگر میڈیا سے منسلک افراد کو مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا رہا۔
مئی 2024 سے اپریل 2025 کے دوران پاکستان میں ’پانچ صحافی صحافت کے فرائض انجام دیتے ہوئے مارے گئے،‘ جن میں سے تین کا تعلق صوبہ سندھ اور دو کا صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا صحافیوں کے لیے سب سے ’خطرناک‘ صوبہ رہا جہاں ان پر 22 مقدمات درج کیے گئے، جبکہ اسلام آباد میں صحافیوں کے خلاف 20، پنجاب میں 18، بلوچستان میں چار اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک مقدمہ درج کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق: ’کم از کم 14 صحافیوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے زیادہ تر پیکا قانون کے تحت درج شدہ مقدمات تھے، جبکہ دیگر آٹھ مقدمات میں صحافیوں کو قانونی کارروائی کے تحت گرفتار یا حراست میں لیا گیا۔‘
’آزادی اظہار رائے اور مفادِ عامہ کی صحافت محاصرے میں ہے‘ کے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ’میڈیا بحران کا آغاز جنوری 2025 میں پیکا قانون میں ترامیم کے بعد سے پیدا ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے نتیجے میں ’حکومت کے لیے صحافیوں اور مخالفین کو گرفتار کرنا، جرمانے عائد کرنا اور قید کرنا‘ بظاہر آسان بتایا گیا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک کہتے ہیں کہ ’تاریخ میں ایسی صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، لہٰذا میڈیا کے وجود کو لاحق خطرہ زیادہ سنگین ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین کی نمائندگی میں وقت کے ساتھ بہتری آئی ہے، تاہم اس عرصے میں نمایاں عدم مساوات برقرار رہی۔
اس رپورٹ میں ’آزادی اظہار رائے کی آئینی ضمانت اور شہریوں کے بنیادی حقوق پر اثر انداز ہونے والی پالیسیوں اور ریاستی اقدامات کے ساتھ اختلاف رائے کے اظہار کے حق کے تحفظ اور پیروی کے لیے قومی تحریک‘ کی سفارش بھی کی گئی ہے۔