اسلام آباد کی مقامی عدالت نے جمعے کو سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف قتل کیس میں نامزد ملزم عمر حیات کا 23 جون تک تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا، جبکہ دورانِ سماعت استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا موبائل فون اب تک برآمد نہیں کیا جا سکا۔
رواں ماہ دو جون کو اسلام آباد کی رہائشی 17 سالہ سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف کو سیکٹر جی 13 میں واقع ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے بتایا تھا کہ ملزم کو 20 گھنٹے میں پنجاب کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
اس سے قبل عدالت نے ملزم عمر حیات کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے اسے 20 جون کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ واقعے کے گواہان نامزد ملزم کی شناخت کر چکے ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ حفیظ احمد کی عدالت میں جمعے کو ثنا یوسف قتل کیس کی سماعت سے تقریباً 45 منٹ قبل ہی نامزد ملزم عمر حیات کو کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا تھا۔
کمرہ عدالت کا منظر کچھ غیر معمولی نظر آیا کیونکہ ثنا یوسف کے والد آج پہلی مرتبہ یہاں موجود تھے۔
ایک جانب بظاہر نارمل نظر آنے والے ہلکے سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ملزم کے ارد گرد چار پولیس اہلکار موجود تھے، وہیں اس کے عین سامنے چند فٹ کے فاصلے پر مقتولہ کے سفید کپڑوں میں ملبوس والد سید یوسف بیٹھے دکھائی دیے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم سے استفسار کیا: ’آپ کے پاس وکیل ہے؟‘ جس پر عمر حیات نے جواب دیا: ’نہیں۔‘
مجسٹریٹ نے پھر استفسار کیا: ’کیا آپ کو وکیل چاہیے؟‘ تو ملزم نے جواب دیا: ’مجھے وکیل نہیں چاہیے۔‘
اس کے بعد پراسیکیوٹر محمد نوید نے عدالت کو بتایا: ’ملزم سے فارچونر گاڑی برآمد کی گئی ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے، تاہم اس سے تاحال موبائل برآمد نہیں کیا جا سکا۔‘
ملزم نے جواب دیا کہ میں نے موبائل فون سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے افسر کو دے دیا تھا۔‘ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا: ’اس (ملزم) سے مقتولہ کا موبائل فون برآمد ہوا ہے، اس کا اپنا موبائل ابھی تک برآمد نہیں ہوا۔‘
سماعت کے بعد عدالت نے ملزم عمر حیات کا 23 جون تک تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
ملزم کیسے پکڑا گیا؟
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اسلام آباد جواد طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ مقتولہ کے پاس دو موبائل فون تھے، جن میں سے ایک ملزم اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مشتبہ افراد کی فہرست بنائی، جو ثنا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ’مشتبہ افراد کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے ڈھونڈا گیا اور ان کی تصاویر نکالی گئیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈی آئی جی کے مطابق ہمارے پاس ملزم کی کافی سی سی ٹی وی فوٹیجز تھیں، جس پر ہم نے کام کیا، کہاں یہ شخص گیا یا بیٹھا یا کہاں سے نکلا۔ ان تصاویر کو فوٹیجز کے ساتھ میچ کرنا شروع کیا اور اندازہ لگایا کہ یہ ملزم ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم اس لیے اندازے پر چل رہے تھے کیونکہ اس (ملزم) نے فوٹیجز میں ماسک پہنا ہوا تھا۔ جائے وقوع سے بھاگتے ہوئے اس نے ماسک پہن لیا تھا۔
’ہم نے دو سے تین (مشکوک) افراد کو فائنل کیا، ان میں سے اس پر زیادہ شک گیا کیونکہ اس کا (گھر) شہر سے باہر تھا۔
’اس کے بعد اس کا موبائل نمبر ڈھونڈا اور اسے ٹریک کیا اور پتہ ملنے پر ٹیم فیصل آباد روانہ کر دی۔ اس وقت تک ہمارا اندازہ تھا کہ یہی مطلوبہ شخص ہو گا۔‘
ڈی آئی جی کے مطابق دیگر مشکوک افراد پر وقت کے ساتھ ساتھ شک کم ہوتا چلا گیا۔
’ہم نے یقین کرنا شروع کر دیا کہ غالباً یہی شخص ہمارا ہدف ہے، جو بعد میں وہی شخص نکلا۔‘
ڈی آئی جی جواد طارق کے مطابق ملزم کو پکڑنے کے لیے سوشل میڈیا اور سیف سٹی کیمرے استعمال کیے گئے۔