اسلام آباد پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ سوشل میڈیا سٹار 17 سالہ ثنا یوسف کے قتل میں نامزد ملزم عمر حیات مقتولہ کے ’موبائل فون کے ذریعے پکڑا گیا۔‘
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جواد طارق نے بتایا کہ ملزم کی شناخت پریڈ ہونا باقی ہے، جس کے بعد تفتیش آگے بڑھے گی۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کی گواہ اور مقتولہ کی والدہ اور پھوپھی سے مجسٹریٹ کے سامنے ملزم کی شناخت کروانا باقی ہے۔ ڈی آئی جی جواد طارق نے امید ظاہر کی کہ اگلے ہفتے تک ملزم کی شناخت پریڈ مکمل ہو جائے گی۔
ثنا یوسف کو رواں ماہ دو جون کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-13 میں واقع ان کے گھر میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
اس کے اگلے دن منگل کو انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) سید علی ناصر رضوی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ملزم کو واقعے کے صرف 20 گھنٹے کے اندر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا، جب کہ اس کے قبضے سے مقتولہ کا موبائل فون اور آلہ قتل بھی برآمد ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے ڈی آئی جی آپریشنز جواد طارق کی نگرانی میں سات پولیس ٹیمیں تشکیل دی گئیں، جنہوں نے تکنیکی بنیادوں پر کیس کی تحقیقات کیں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور 300 سے زائد کال ریکارڈز کا تجزیہ کیا۔
اس کے علاوہ سیف سٹی اسلام آباد اور نجی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کی گئیں۔
آئی جی اسلام آباد نے واقعے کو مسلسل انکار (Repeated Rejection) کرنے کا کیس قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ملزم کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے اور اس کے والد ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔
چار جون کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم عمر حیات کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
ملزم کیسے پکڑا گیا؟
ڈی آئی جی اسلام آباد جواد طارق کے مطابق مقتولہ کے پاس دو فون تھے، جن میں سے ایک ملزم اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مشتبہ افراد کی فہرست بنائی، جو ثنا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ’مشتبہ افراد کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے ڈھونڈا گیا اور ان کی تصاویر نکالی گئیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈی آئی جی کے مطابق ہمارے پاس ملزم کی کافی سی سی ٹی وی فوٹیجز تھیں، جس پر ہم نے کام کیا، کہاں یہ شخص گیا یا بیٹھا یا کہاں سے نکلا۔ ان تصاویر کو فوٹیجز کے ساتھ میچ کرنا شروع کیا اور اندازہ لگایا کہ یہ ملزم ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم اس لیے اندازے پر چل رہے تھے کیونکہ اس (ملزم) نے فوٹیجز میں ماسک پہنا ہوا تھا۔ جائے وقوع سے بھاگتے ہوئے اس نے ماسک پہن لیا تھا۔
’ہم نے دو سے تین (مشکوک) افراد کو فائنل کیا، ان میں سے اس پر زیادہ شک گیا کیونکہ اس کا (گھر) شہر سے باہر تھا۔
’اس کے بعد اس کا موبائل نمبر ڈھونڈا اور اسے ٹریک کیا اور پتہ ملنے پر ٹیم فیصل آباد روانہ کر دی۔ اس وقت تک ہمارا اندازہ تھا کہ یہی مطلوبہ شخص ہو گا۔‘
ڈی آئی جی کے مطابق دیگر مشکوک افراد پر وقت کے ساتھ ساتھ شک کم ہوتا چلا گیا۔
’ہم نے یقین کرنا شروع کر دیا کہ غالباً یہی شخص ہمارا ہدف ہے، جو بعد میں وہی شخص نکلا۔‘
ڈی آئی جی جواد طارق کے مطابق ملزم کو پکڑنے کے لیے سوشل میڈیا اور سیف سٹی کیمرے استعمال کیے گئے۔
ملزم کو منہ پر کپڑا ڈال کر عدالت کیوں پیش کیا گیا؟
ڈی آئی جی نے ملزم کو منہ ڈھانپ کر عدالت میں پیش کرنے کی وجہ قانونی بتائی۔ ان کا کہنا تھا: ’چونکہ ثنا یوسف کی والدہ اور پھوپھی نے ابھی اس کی شناخت کرنی ہے، لہٰذا ملزم کا منہ ڈھانپنا ضروری تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’شناخت پریڈ سے پہلے کسی کو بھی ملزم کے شکل نہیں دکھا سکتے کیونکہ اگر ملزم کو عدالت میں منہ ڈھانپے بغیر لے جاتے تو میڈیا پر اس کی تصویر آ جاتی اور آگے جا کر ملزم کا وکیل کہہ سکتا ہے کہ ان خواتین نے ملزم کو اس لیے پہچانا کیونکہ میڈیا پر اس کی شکل آ گئی تھی۔‘