امریکہ کی جنگیں اور معاہدے: پیچیدہ دنیا کو آسان بنانے کا عمل

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تصفیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کی بنیاد سودے بازی کی سیاست پر رکھی گئی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ جاتے ہوئے آٹھ جون، 2025 کو نیو جرسی کے موریس ٹاؤن میونسپل ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں (اینڈریو کیبلیرو-رینولڈز / اے ایف پی)

امریکہ ایک دور سے نکل کر دوسرے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ ’قوم سازی‘ کی جنگوں کے زمانے سے اب یوکرین، غزہ اور ایرانی ایٹمی مسئلے جیسے ہنگامی تصفیوں کے دور کی تکمیل ہو رہی ہے۔ 

ان دونوں ادوار میں امریکہ دنیا کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔

جنگوں کے دور میں صدر جارج ڈبلیو بش کی نیو کنزرویٹو سوچ نے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ کے حملے کو افغانستان پر چڑھائی، عراق پر قبضے اور طالبان و صدام حسین کی حکومتوں کے خاتمے کے لیے استعمال کیا۔

ان کا خواب طاقت کے زور پر دنیا کو بدلنے کا تھا، جس کا آغاز قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس کے الفاظ میں ’نئے وسیع تر مشرقِ وسطیٰ‘ کے قیام سے ہونا تھا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تصفیوں کا جو دور شروع ہوا، اس کی بنیاد سودے بازی کی سیاست پر رکھی گئی۔

ٹرمپ اور اس کے اردگرد موجود اولیگارکی کے لیے دنیا ایک میدانِ جنگ نہیں بلکہ سودوں کی منڈی ہے۔

یوکرین، غزہ اور ایران کے ایٹمی مسئلے کے پیچیدہ معاملات میں مذاکرات کرنے والے سٹیو وٹکوف ہیں، جو ایک ریئل سٹیٹ ڈویلپر ہیں اور جنہیں بحرانوں، جنگوں، جغرافیائی سیاسی تنازعات یا حکمتِ عملی کی دنیا کا کوئی تجربہ نہیں۔

وائٹ ہاؤس میں فیصلہ کرنے والے ٹرمپ بھی اپنے نمائندے سے زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔ وہ فیصلے جبلت اور دنیا کی سادہ سی تصویر بنا کر کرتے ہیں۔

انہوں نے امریکہ کو بدلنے کی کوشش کی، مگر ایک پیچیدہ دنیا سے ٹکرا گئے۔ انہیں تین ایسے کھلاڑیوں سے واسطہ پڑا جو نظریات سے وابستہ ہیں، خواہ وہ اپنی مصلحت کے لیے سودے پر آمادہ ہوں۔

بن یامین نتن یاہو، جنہیں تجزیہ نگار نہوم بارنیہ نے ’چلتی پھرتی غلط فہمی‘ کہا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، جو امام خمینی کے اس اعلان پر قائم ہیں کہ امریکہ سے دشمنی انقلاب کی بنیاد ہے اور جو اصرار کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایک طاقت ور ریاست اور ایک ایسی انقلاب ہو جو پاسدارانِ انقلاب کے ذریعے برآمد کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ولادی میر پوتن، جو انٹیلی جنس کے حلقوں سے اٹھ کر کریملن تک پہنچے اور سرد جنگ اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ و یورپ سے بدلہ لینے پر تلے ہوئے ہیں، اور جو ’تاریخ کے خاتمے‘ کے تصور کا مذاق بنا رہے ہیں۔

امریکہ نے افغانستان میں 18 سال جنگ لڑی اور طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد ’قوم سازی‘ کی کوشش کی، جو اس کی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن گئی۔

وہ ’روایتی طریقے سے انقلابی مقاصد حاصل کرنا‘ چاہتا تھا، جیسا کہ جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے کہا تھا، ’کامیابی کا پیمانہ یہ نہیں کہ ہم کتنے طالبان ماریں بلکہ یہ کہ ہم کتنے لوگوں کی حفاظت کریں۔‘

مگر دن کو امریکی امداد اور علاج لینے والے رات کو اس کے خلاف لڑ رہے تھے۔ سابق انٹیلی جنس سربراہ رچرڈ ہلمز کی اس نصیحت کو بھی نہیں پڑھا کہ ’مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کی کہانیاں بھول جاؤ اور صدیوں پرانے مسلک، قبائل اور نسلوں کے مسائل کو سمجھو۔‘

اور اس مقولے پر بھی کان نہ دھرے کہ ’تم افغان کو کرائے پر لے سکتے ہو، خرید نہیں سکتے۔‘  انجام کار طالبان پھر واپس آ گئے اور امریکہ کو کابل سے ذلت آمیز واپسی نصیب ہوئی۔

امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، صدام حسین کی حکومت چند دنوں میں ختم کر دی، مگر پھر ایک دلدل میں پھنس گیا۔ اس نے پرتشدد مزاحمت کو ’دہشت گردی‘ کا نام دیا۔

اسے توقع تھی کہ عراق سے جمہوریت کی لہر پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ نیوکون رچرڈ پرل کی سادہ لوحی یہ تھی کہ ’صدام کے خاتمے سے ایرانی عوام ملاؤں کی آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘

یوں امریکہ نے عراق کو اسلامی جمہوریہ ایران کی جھولی میں ڈال دیا، جسے وہ ’بدی کے محور‘ میں شامل کر چکا تھا۔

آئینی ماہر نوح فیلڈمین کی اس بات پر بھی توجہ نہ دی کہ ’فوری انتخابات ایسے افراد کو جتاتے ہیں جو جمہوریت کی خدمت کی بجائے تباہی کا سبب بنتے ہیں۔‘ 

عراق میں مقرر کردہ امریکی وائس رائے پال بریمر، جنھوں نے فوج اور بعث پارٹی تحلیل کر کے انارکی پیدا کی، خود بھی یہ مان گئے کہ ’فتح کے بعد ہم عراق میں سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘

روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو پوتن نے اسے نیٹو کی سرحدوں تک رسائی اور کیئف میں نیو نازیوں کے قبضے کے خلاف دفاع قرار دیا۔

تاہم یوکرینی صحافی ایلیا پونومارینکو اپنی کتاب  I Will Show You How It Was  میں لکھتے ہیں کہ ’یہ جنگ نیٹو یا مغرب کی دھمکیوں سے نہیں، بلکہ ایک آمر کی دیوانگی کا نتیجہ ہے، جس نے ریاست کو اپنی خواہشات کا غلام بنا لیا۔‘

یہی پوتن جارجیا کے دو علاقے اور کریمیا پہلے ہی ضم کر چکے تھے اور اس دوران بش اور اوباما دونوں سے خوشگوار تعلقات بنائے رکھے۔

کسی کو معلوم نہیں کہ ٹرمپ کس طرح تین پیچیدہ مسئلے حل کرنے میں کامیاب ہوں گے:

  1. ایران کو ایٹمی اسلحے کے قریب پہنچنے سے روکنا، جب کہ وہ اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر اور طویل پابندیاں سہہ چکا ہے۔
  2. یوکرین کے صدر زیلنسکی کو کرائمیا اور چار مقبوضہ علاقوں سے دست بردار ہونے پر مجبور کرنا تاکہ پوتن جنگ ختم کرنے پر راضی ہوں، جسے وہ اب بھی ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کہتے ہیں۔
  3. نتن یاہو کو غزہ کی جنگ روکنے اور محصور فلسطینی ریاست کی مخالفت پر آمادہ کرنا، جب کہ اسرائیلی حکومت مغربی کنارے کے انضمام، شام میں نئی صورت حال اور لبنان میں حزب اللہ پر تابڑ توڑ حملوں سے خوش ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ان سودوں کی ممکنہ کامیابی محض سٹیٹس کو (موجودہ حالت) کو قبول کرنے اور ’حق کی طاقت سے طاقت کے حق‘ کی طرف منتقلی ہے۔

فرانسیسی مصنف پاسکال ڈی سوٹر نے اپنی کتاب ’The Madmen Who Rule Us‘ میں لکھا ہے: ’ہم سب سے پاگل، متکبر اور جھوٹے حکمرانوں کو اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ ان کی خامیاں ہمیں اپنے بارے میں تسلی دیتی ہیں۔

’یوں ہم انہی جیسے لوگوں کو چنتے ہیں اور اس فہرست میں امریکہ پہلا نہیں، آخری ملک ہے۔‘

بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ