امریکی محکمہ خزانہ نے جمعہ کو ایران سے متعلق نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جن کے تحت 35 سے زیادہ افراد اور اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
پابندیوں کی زد میں آنے والوں میں کم از کم دو کمپنیاں ایسی بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق ایران کی قومی آئل ٹینکر کمپنی سے ہے۔
امریکی وزارتِ خزانہ کے ماتحت غیر ملکی اثاثوں پر نظر رکھنے والے دفتر نے ان کمپنیوں کو خصوصی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے امریکہ میں موجود تمام اثاثے منجمد ہو گئے ہیں۔
ادھر ایران کی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ہفتے کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد حالیہ سفری پابندی ایرانی عوام اور مسلمانوں کے خلاف امریکی فیصلہ سازوں کی گہری دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک بیان کے مطابق امریکہ ایرانی حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے 35 افراد اور اداروں پر پابندیاں لگا رہا ہے۔
’اس نیٹ ورک نے ایرانی ایکسچینج ہاؤسز اور غیر ملکی فرنٹ کمپنیوں کے ذریعے اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کی ہے تاکہ تہران کی دہشت گردی کی مہموں کو برقرار رکھا جا سکے جو بین الاقوامی امن اور سلامتی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔‘
چار فروری کو صدر کی جانب سے قومی سلامتی کے صدارتی میمورنڈم کے اجرا کے بعد ایران کے شیڈو بینکنگ نیٹ ورک کے خلاف یہ پہلی کارروائی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پابندیوں کا ہدف متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ میں ایرانی شہریوں اور کچھ اداروں کو بنانا گیا ہے۔
جوہری معاہدے کی کوششیں
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ تہران کے ساتھ نیا جوہری معاہدہ طے کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
12 اپریل سے اب تک امریکہ اور ایران کے درمیان عمان کی ثالثی میں پانچ مراحل پر مشتمل مذاکرات ہو چکے ہیں، جن کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر کسی نئے معاہدے تک پہنچنا ہے۔
تاہم بات چیت کے ان ادوار کے ساتھ ایک نمایاں اختلاف بھی برقرار ہے، جو ایران کی یورینیئم افزودگی کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ امریکہ اس پر مکمل پابندی چاہتا ہے، جبکہ ایران اسے اپنا ناقابلِ تنسیخ حق قرار دیتا ہے اور اس پر کسی قسم کی سودے بازی سے انکار کر چکا ہے۔
صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر سفارتی کوششیں ناکام ہوئیں تو امریکہ فوجی کارروائی کا راستہ بھی اپنا سکتا ہے۔
دوسرح جانب ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ’النیل للاخبار‘ ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ایران جوہری اسلحہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور اس کی بنیاد ہمارا دینی اعتقاد اور رہبر کا فتوی ہے
ارنا کے مطابق وزیر خارجہ سید عباس عراقچـی نے اس ٹی وی گفتگو میں کہا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی ایٹمی اسلحے کو حرام قرار دے چکے ہیں لہذا اس فتوے سے عدول ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جوہری مذاکرات کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ ان کا پروگرام پر امن ہے اور اگر اس حوالے سے کوئی تشویش ہے تو وہ اس کو دور کرنے اور اعتماد سازی کے لیے تیار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سید عباس عراقچی نے کہا: ’ہم اس سلسلے میں پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم نے پانچ جمع ایک کے ساتھ مذاکرات کیے، ایٹمی معاہدہ ہوا۔ پوری دنیا نے اس سفارتی نتیجے کا خیر مقدم کیا لیکن امریکہ معاہدے سے نکل گیا۔ لیکن اس کے باوجود ایران ایک بار پھر اپنا خلوص نیت ثابت کرسکتا ہے اور اعتماد سازی کے لیے تیار ہے۔‘
انہوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ ابھی ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کا وقت معین نہیں ہوا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ سلطنت عمان ثالث کی حیثیت سے فعال کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ نے چند تجاویز پیش کی ہیں جن کا وہ آئندہ چند روز ميں مناسب جواب دیں گے۔ ’ہمارا جواب ایران کے بنیادی اصولوں اور قوم کے مفادات کے مد نظر ہوگا۔ اس کے بعد عمان کے وزیر خارجہ اگلے دور کے وقت اور جگہ کا تعین کریں گے۔‘
ایران نے 2015 میں بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت اس کے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کی ضمانت کے بدلے اقتصادی پابندیاں نرم کی گئی تھیں۔
تاہم 2018 میں، اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران صدر ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں، جس کے جواب میں ایران نے ایک سال بعد معاہدے کی اہم شقوں پر عمل درآمد روکنا شروع کر دیا۔