امریکہ کی 12 ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی

پابندی سے متاثرہ 12 ممالک میں افغانستان، میانمار، چاڈ، کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چار جون 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ لان میں ایک تقریب میں شریک ہیں (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو ایک اعلامیہ پر دستخط کر کے 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کر دی۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ’غیر ملکی دہشت گردوں‘ اور دیگر سکیورٹی خطرات سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔

پابندی سے متاثرہ 12 ممالک میں افغانستان، میانمار، چاڈ، کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔

اسی طرح دیگر سات ممالک برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا  کے شہریوں پر جزوی سفری پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

ان پابندیوں کی خبر سب سے پہلے سی بی ایس نیوز نے دی تھی۔

صدر ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر جاری کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں کہا: ’ہم ایسے افراد کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گے، جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فہرست میں تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نئے ممالک کا اضافہ بھی ممکن ہے۔

یہ اعلامیہ نو جون 2025 کو امریکی وقت کے مطابق رات 12:01 بجے نافذ العمل ہو گا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ جن ممالک پر سخت ترین پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہاں ’دہشت گردوں کی بڑی تعداد موجود ہے،‘ وہ ویزا سکیورٹی میں تعاون نہیں کرتے، مسافروں کی شناخت کی تصدیق نہیں کر سکتے، مجرمانہ ریکارڈ رکھنے کا نظام ناقص ہے اور ان کے شہریوں کی امریکہ میں ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد رک جانے کی شرح بھی زیادہ ہے۔‘

ٹرمپ نے کہا: ’ہم کسی ایسے ملک سے کھلی نقل مکانی کی اجازت نہیں دے سکتے جہاں سے آنے والوں کی محفوظ اور قابلِ اعتماد طریقے سے جانچ اور نگرانی ممکن نہ ہو۔‘

صومالیہ نے فوری طور پر امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاملات پر تعاون کا وعدہ کیا ہے۔

امریکہ میں صومالی سفیر داہر حسن عبدي نے ایک بیان میں کہا: ’صومالیہ امریکہ کے ساتھ اپنے طویل المدتی تعلقات کی قدر کرتا ہے اور ان خدشات کو دور کرنے کی غرض سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔‘

اپنے پہلے دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سات اکثریتی مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی عائد کی تھی۔

 اس پالیسی کو کئی بار تبدیل کیا گیا اور بالآخر 2018 میں اسے سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔

ٹرمپ کے بعد صدارت سنبھالنے والے ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن نے 2021 میں اس پابندی کو ختم کر دیا اور اسے ’قومی ضمیر پر ایک داغ‘ قرار دیا تھا۔

ٹرمپ کا حالیہ حکم نامہ ان کی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز میں شروع کی گئی امیگریشن مہم کا حصہ ہے۔

انہوں نے اکتوبر 2023 کی ایک تقریر میں اپنے منصوبے کا عندیہ دیا تھا، جس میں انہوں نے غزہ، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن اور ’دیگر تمام مقامات جہاں سے ہماری سلامتی کو خطرہ لاحق ہو‘ کے لوگوں پر پابندیاں عائد کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر بھی جاری کیا تھا، جس میں امریکہ میں داخلے کے خواہش مند غیر ملکیوں کی سخت جانچ پڑتال کا حکم دیا گیا تھا تاکہ ممکنہ قومی سلامتی کے خطرات کو پہچانا جا سکے۔

 اس حکم کے تحت متعدد وفاقی وزرا کو ایسے ممالک کی فہرست مرتب کرنے کی ہدایت دی گئی تھی جن کی ’جانچ پڑتال اور سکریننگ کی معلومات بہت کم ہیں‘ اور جہاں سے سفر کو مکمل یا جزوی طور پر معطل کرنا ضروری ہو۔

مارچ میں روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ درجنوں ممالک پر سفری پابندیوں پر غور کر رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ