امریکہ نے 11 ہزار افغان پناہ گزینوں کا قانونی تحفظ ختم کردیا

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں سیاحت میں اضافے کو جواز بنا کر امریکہ میں مقیم 11 ہزار سے زائد افغانوں کے لیے انسانی تحفظات کی منسوخی درست قرار دے دی ہے۔

چھ جنوری، 2025 کو لی گئی یہ ہینڈ آؤٹ تصویر مانیلا میں امریکی سفارت خانے سے موصول ہوئی ہے۔ اس میں افغان شہریوں کو فلپائن کے جزیرے لوزون پر ایک ایئرپورٹ ٹرمینل پر پہنچتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان افراد کے امریکی سپیشل امیگرنٹ ویزا پر کارروائی کی جائے گی (اے ایف پی)

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں سیاحت میں اضافے کو جواز بنا کر امریکہ میں مقیم 11 ہزار سے زائد افغانوں کے لیے انسانی تحفظات کی منسوخی درست قرار دے دی ہے۔

پیر کو انتظامیہ نے ان 11,700 افغان شہریوں کی عارضی قانونی حیثیت ختم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جو 2021 میں امریکہ کے انخلا کے بعد ملک چھوڑ کر آئے تھے۔ یہ انخلا کئی دہائیوں پر مشتمل تباہ کن جنگ کے بعد ہوا تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد وہاں سے نکل گئے تھے۔

محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے ایک بیان میں کہا: ’یہ انتظامیہ عارضی تحفظاتی حیثیت ( ٹی پی ایس) کو اس کے اصل عارضی مقصد کی طرف واپس لا رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے افغانستان کی صورت حال کا اپنے بین الاداری شراکت داروں کے ساتھ مل کر جائزہ لیا ہے، اور یہ ٹی پی ایس کے لیے درکار شرائط پوری نہیں کرتی۔ افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور اس کی مستحکم ہوتی ہوئی معیشت اب ان کی وطن واپسی میں رکاوٹ نہیں بنتی۔‘

محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے وفاقی حکومت کو بھیجے گئے نوٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کی قومی سلامتی میں ’نمایاں بہتری‘ آئی ہے، اور ’افغان شہریوں کی وطن واپسی مسلح تصادم یا غیر معمولی اور عارضی حالات کی وجہ سے ان کی ذاتی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔‘

وفاقی رجسٹر میں موجود نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’طالبان حکومت اپنا عالمی تشخص بہتر بنانے کے لیے سیاحت کو فروغ دے رہی ہے۔‘

نوٹس میں کہا گیا: ’افغانستان میں سیاحت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اغوا کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ چند رپورٹس کے مطابق سیاح اپنے تجربات سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں، جس میں پرامن دیہی علاقوں، مقامی لوگوں کی مہمان نوازی اور ثقافتی ورثے کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔‘

تاہم نوٹس میں بتایا گیا کہ ملک میں اب بھی دو کروڑ 30 لاکھ افراد کو ہنگامی انسانی امداد کی ضرورت ہے، لیکن محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے اسے نسبتاً کامیابی قرار دیا ہے، کیونکہ گذشتہ سال کے مقابلے میں یہ تعداد دو کروڑ 90 لاکھ سے کم ہوئی ہے۔

پناہ گزینوں کی امدادی تنظیموں نے اس انتظامیہ کے فیصلے کی مذمت کی ہے، اور کہا ہے کہ کئی افغان شہری، جنہوں نے امریکہ کی مدد کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا، اب ملک چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

پناہ گزینوں کی امدادی تنظیم افغان ایویک کے صدر شان وین ڈائور نے انتظامیہ کے اعلان کو ’غیر معقول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانوں کے لیے ٹی پی ایس کو ختم کرنے کا فیصلہ ’حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ سیاست پر مبنی ہے۔‘

انہوں نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا: ’یہ سراسر شرم ناک ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’انتظامیہ ان افغانوں کے ساتھ دھوکہ کر رہی ہے ’جنہوں نے امریکہ کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں، یہاں اپنی زندگیاں بنائیں اور ہمارے وعدوں پر یقین کیا۔ اس پالیسی کی تبدیلی سے ہماری سلامتی میں بہتری نہیں آئے گی — بلکہ یہ خاندانوں کو توڑے گی، زندگیاں غیر مستحکم کرے گی اور ہماری بچی کھچی اخلاقی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گی۔‘

ٹی پی ایس کا درجہ 2022 میں سقوط کابل کے بعد افغانوں کے لیے کھولا گیا تھا اور 2023 میں توسیع دی گئی تھی۔

ان تحفظات کے بغیر، متاثرہ افغان شہریوں کو امریکہ میں قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت ختم ہو جائے گی اور انہیں گرفتار کر کے ملک بدر کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ کم از کم 10 سال تک قانونی طور پر ملک میں دوبارہ داخل نہیں ہو سکیں گے۔

لیکن میتھیو ٹریگیسر، امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز کے چیف آف پبلک افیئرز نے دعویٰ کیا کہ ’کچھ بدنیت عناصر‘ اس پروگرام کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

پناہ گزینوں کی امدادی تنظیم گلوبل ریفیوج کی صدر کرش او مارا وگناراجہ نے کہا کہ ’ٹی پی ایس کا ایک مقصد ہے: ان لوگوں کی حفاظت کرنا جن کی اپنے وطن واپسی انہیں شدید خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ آج کا افغانستان اب بھی طالبان کی حکمرانی، معاشی تباہی اور انسانی بحران سے دوچار ہے۔ اس حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانوں کے تحفظات کا خاتمہ ان اتحادیوں کے ساتھ اخلاقی طور پر ناقابل معافی غداری ہے جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر ہماری طویل ترین جنگ کے دوران امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ساتھ دیا۔‘

وگناراجہ نے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کا تحفظ ختم کرنے کا مطلب ہے کہ انہیں طالبان کی حکمرانی میں واپس بھیجنا، جہاں انہیں نظامی جبر اور صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی ساکھ پر ناقابل معافی داغ ہو گا۔

ٹی پی ایس کی منسوخی روکنے کے لیے جاری ایک وفاقی مقدمے کے تحت افغان شہریوں کے لیے یہ عارضی تحفظ 20 مئی کو ختم ہو جائے گا اور اس پروگرام کا خاتمہ 12 جولائی سے نافذ العمل ہو گا۔

جن افغان شہریوں کے پاس ٹی پی ایس ہے اور ساتھ ہی پناہ کی درخواست، خصوصی امیگریشن ویزا کیس یا دیگر زیر التوا امیگریشن کیس ہیں، ان پر اس فیصلے کا اثر نہیں ہونا چاہیے، حالانکہ انتظامیہ کے اقدامات ابھی غیر واضح ہیں۔

پناہ گزینوں کے حقوق کے گروہ عدالت میں اس فیصلے کے خلاف لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امیگرنٹ ایڈووکیسی گروپ CASA Inc کی جانب سے دائر مقدمہ ایک افغان شہری اے ایف کی نمائندگی کرتا ہے، جو ورجینیا میں ٹی پی ایس کے تحت رہائش پذیر ہیں۔

عدالت میں جمع کروائے گئے دستاویزات کے مطابق، ان کے پاس انجینیئرنگ کی ڈگری ہے اور وہ اپنے ٹی پی ایس ورک اجازت نامے کے تحت بطور پروجیکٹ مینیجر کام کر رہے ہیں۔

مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’اگر ان تحفظات کا خاتمہ ہو جاتا ہے، تو ان کا آجر انہیں برطرف کر سکتا ہے یا کم از کم غیر معینہ مدت کے لیے بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج سکتا ہے، اور وہ ان میں سے کسی کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔

مقدمے کے مطابق: ’اگرچہ وہ افغانستان کے شہری ہیں، لیکن انہوں نے کبھی وہاں مستقل طور پر زندگی نہیں گزاری۔ اپنے بچپن میں انہوں نے صرف پانچ ہفتے افغانستان میں گزارے تھے۔ اے ایف کا افغانستان میں کوئی قریبی خاندان نہیں ہے اور نہ ہی وہاں محفوظ یا مستحکم زندگی گزارنے کے امکانات ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا