گذشتہ چار برسوں سے بغلان کے زرغونہ گرلز ہائی سکول کی وہ جماعت، جہاں کبھی 40 لڑکیاں سیاہ یونیفارم اور سفید دوپٹے پہنے جمع ہوا کرتی تھیں، میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
ڈیسک خالی پڑے ہیں اور تختہ سیاہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ افغانستان واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں پر منظم انداز میں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ جو پابندی عارضی طور پر لگائی گئی تھی، وہ اب ریاستی پالیسی بن چکی ہے۔
یہ کوئی ثقافتی معاملہ یا عبوری مرحلہ نہیں بلکہ صنفی بنیاد پر جبر کو باضابطہ شکل دی گئی ہے۔ لڑکیاں صرف تعلیم سے ہی نہیں بلکہ عوامی زندگی کی سرگرمیوں میں شمولیت کے حق سے بھی محروم ہو چکی ہیں۔ واضح تشویش کے باوجود، اہم عالمی فریق، جن میں محدود اختیارات والے اقوام متحدہ کے ادارے، وہ مغربی حکومتیں جو زیادہ تر لاتعلق ہو چکی ہیں، اور بڑے عطیہ دہندگان جو مالی امداد میں کمی کر چکے ہیں، اب تک کوئی مربوط یا مؤثر ردعمل دینے میں ناکام رہے ہیں۔
اب 22 لاکھ لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔ خواتین کی یونیورسٹی میں داخلے کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ خواتین کو زیادہ تر شعبوں میں کام کرنے سے منع کر دیا گیا ہے، پارکس اور عوامی مقامات پر جانے سے روک دیا گیا ہے اور مرد سرپرست کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ محرومی مکمل ہے۔ اس کا اثر صرف خواتین اور لڑکیوں پر نہیں بلکہ پورے پورے خاندانوں، برادریوں اور معیشتوں پر پڑتا ہے۔
2021 سے اب تک طالبان خواتین کے حقوق کو محدود کرنے والے 100 سے زائد احکامات جاری کر چکے ہیں۔ پھر بھی ان خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے یا ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کوئی عالمی نظام موجود نہیں۔ پابندیاں منتشر انداز میں لگائی گئی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے مالی امداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ اور افغان خواتین کی آوازیں بین الاقوامی فیصلہ سازی کے فورمز پر اب بھی بڑی حد تک غائب ہیں۔
اسی لیے ہم نے ’فرینڈز آف افغان ویمن نیٹ ورک (ایف اے ڈبلیو این) کا آغاز کیا جو برطانیہ میں اٹھایا جانے والا پہلا قدم ہے جس کا مقصد براہ راست اقدامات، بین الاقوامی شراکت داری اور حکمت عملی پر مبنی وکالت کے ذریعے افغان خواتین کی حمایت کرنا ہے۔
میں نے صحافی سارہ سینڈز کے ساتھ مل کر اس نیٹ ورک کی بنیاد اس لیے رکھی تاکہ افغان خواتین کو فراموش نہ کر دیا جائے۔ ہمارا کام ایک عالمی شراکتی نیٹ ورک قائم کرنے پر مرکوز ہے، جو ڈیجیٹل خواندگی، خواتین کی زیر قیادت کاروباروں کی حمایت، اور پالیسی سازوں، محققین اور کاروباری رہنماؤں کو یکجا کرنے پر مبنی ہے، تاکہ افغان خواتین بین الاقوامی مکالمے کا حصہ بنی رہیں، چاہے وہ قومی سطح سے دور رکھی گئی ہوں۔
ہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ سو گرے ایف اے ڈبلیو این کی مشاورتی بورڈ کی سربراہ کے طور پر ہمارے ساتھ شامل ہو چکی ہیں۔
سوگرے نے کہا کہ ’مجھے اعزاز محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت سے رخصت ہونے کے بعد میرا پہلا کردار ’فرینڈز آف افغان ویمن نیٹ ورک کی سربراہی کی دعوت قبول کرنا ہے۔ افغان خواتین کو منظم طریقے سے اپنی ہی سماج سے نکالا جا رہا ہے۔
’یہ صرف تعلیم کا مسئلہ نہیں۔ یہ انسانی وقار، حقوق اور عالمی ذمے داری کا سوال ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ میں ایسی حکومتوں کے ساتھ کام کرتی رہی ہوں جنہوں نے انسانی حقوق کی بہتری کے لیے سخت محنت کی، اور میں اس تجربے کو اس کردار میں ساتھ لے کر چلوں گی۔
’ دنیا کو کسی ایسے عمل کو جائز قرار نہیں دینا چاہیے جو افغان خواتین کو نظرانداز کرے۔ اسے افغان خواتین اور لڑکیوں کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ ہمیں سب کو مل کر بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
افغان خواتین کبھی سرکاری ملازمین کا 27 فیصد اور یونیورسٹی طلبہ کا 20 فیصد سے زیادہ حصہ ہوا کرتی تھیں۔ خواتین جج، ارکان پارلیمان، صحافی اور انجینئر بھی تھیں۔ یہ کامیابیاں اگرچہ غیر مساوی تھیں، مگر حقیقی تھیں۔ اور اب یہ سب ختم ہو چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس زوال کی قیمت کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق محنت کی منڈی میں صنفی عدم مساوات کسی ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو 20 فیصد سے زیادہ کم کر سکتی ہے۔ افغانستان، جو پہلے ہی معاشی تباہی کے دہانے پر ہے، اس محرومی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی بین الاقوامی برادری، جس نے دو دہائیوں میں اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے، مزید لاتعلقی کی متحمل ہو سکتی ہے۔
ایف اے ڈبلیو این کا ماڈل تین ستونوں پر قائم ہے یعنی نمایاں حیثیت، اختیار، اور عملی اقدام۔ سب سے پہلے، ہم پالیسی کے حلقوں اور میڈیا پلیٹ فارمز پر افغان خواتین کی آواز کو بلند کرنے کا کام کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہم آج کے افغانستان میں نظرانداز کی گئی خواتین کو رہنمائی اور کاروباری معاونت فراہم کرتے ہیں۔
تیسرا، ہم عالمی فریقوں، جن میں نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں، کے ساتھ مل کر محفوظ اور دور سے کام کرنے کے ایسے مواقع تلاش کرتے ہیں جن سے افغان خواتین آمدنی حاصل کر سکیں اور خودمختاری برقرار رکھ سکیں۔
اب بین الاقوامی برادری کو علامتی اقدامات سے آگے بڑھ کر ایک اصولی اور ہم آہنگ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ طالبان سے سفارتی روابط کو خواتین کے حقوق کے معاملے میں قابل پیمائش پیش رفت سے مشروط ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سیاسی تسلیم، ترقیاتی امداد یا پابندیوں میں نرمی کو خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم، روزگار اور آزادانہ نقل و حرکت تک رسائی کی بحالی سے جوڑا جائے۔
اسی قدر اہم یہ ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر کام کرنے والی خواتین کی قیادت میں قائم تنظیموں کو براہ راست مالی امداد فراہم کی جائے۔ یہ تنظیمیں زمینی حالات کو اکثر حقیقی معنوں میں بہتر طور پر سمجھتی ہیں اور وہی سب سے مؤثر طریقے سے امداد وہاں پہنچا سکتی ہیں جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ تنظیمیں مسلسل مالی قلت کا شکار ہیں اور اکثر بڑی، مردوں کی غالب اکثریت والی غیر سرکاری زیادہ بڑی تنظیموں کے حق میں نظرانداز کی جاتی ہیں۔
افغان خواتین کی محرومی کوئی ناگزیر حقیقت نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جو اقتدار میں ہیں، اور ان کا بھی جو خاموش رہتے ہیں۔ مگر یکجہتی، جب حکمت عملی کے ساتھ اور مسلسل ہو، تو طاقتور ثابت ہوتی ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ افغان خواتین ثابت قدم رہیں گی یا نہیں۔ وہ ضرور رہیں گی۔ سوال یہ ہے کہ باقی دنیا خاموش کردار کا راستہ چنے گی یا حوصلے کا۔
© The Independent