ایک سال قبل آج ہی کے دن معروف افغان ماہر تعلیم مطیع اللہ ویسا کو طالبان نے ایک مسجد سے اغوا کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسی کے زیر انتظام ایک مرکز میں لے گئے، جہاں انہوں نے اگلے سات ماہ جیل میں گزارے۔
ویسا کا واحد جرم سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پوسٹس کی وجہ سے آن لائن بہت زیادہ مقبول ہونا تھا، جن میں بحران زدہ ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ان کی گھر گھر مہم کی تعریف کی گئی تھی۔
اگست 2021 میں ملک پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو سکولوں، دفاتر اور عوامی مقامات پر جانے سے روکتے ہوئے ایک سفاکانہ حکومت نافذ کر رکھی ہے۔
طالبان نے آخرکار گذشتہ سال اکتوبر میں ویسا کو رہا کردیا، لیکن یہ رہائی اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کئی دیگر بین الاقوامی اداروں اور انجلینا جولی سمیت مشہور شخصیات کی جانب سے مسلسل مہم چلانے کے بعد عمل میں آئی۔
ویسا، جو ملک میں تعلیم کے حامی آخری کارکنوں میں سے ایک ہیں، اب طالبان کی حراست کے دوران آنے والے جسمانی زخموں سے صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن ملک کے سخت گیر اسلامی حکمرانوں سے انہیں اب بھی خوف ہے۔
طالبان کی جانب سے اغوا کے جانے سے قبل ویسا ایک تنظیم ’پین پاتھ‘ کی سربراہی کر رہے تھے۔ تین ہزار معاونین اور رضاکاروں کے ساتھ وہ افغانستان کے طول و عرض میں ایک ہی پیغام لے کر گئے کہ اگر آپ افغانستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو تعلیم حاصل کرنے دیں۔
طالبان اس بات سے ناراض تھے کہ ویسا کی توجہ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر تھی۔ طالبان کے زیرِ حکومت افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں لڑکیوں اور خواتین کے سکولوں اور کالجوں میں جانے پر پابندی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسا کے ایک قریبی ذرائع نے بتایا کہ کس طرح انہیں اپنی سات ماہ کی حراست کے دوران مختلف قسم کے جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جہاں ان کی حالت تیزی سے خراب ہوگئی۔ تشدد سے مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں انہیں مہینوں لگ گئے۔
ذرائع نے طالبان کے ردعمل کے ڈر سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’انہوں نے ان سے کہا کہ آپ نے طالبان کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کیا کیونکہ آپ نے خفیہ سکول، احتجاجی اجلاس شروع کیے اور خواتین اور لڑکیوں کے لیے سکولوں اور یونیورسٹیوں اور ان کے انسانی حقوق کی وکالت کی۔‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں قید کے دوران 32 سالہ ویسا کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا، تاہم ویسا اور ان کے خاندان کے خلاف طالبان کی جانب سے مزید کارروائی کے امکان کی وجہ سے انہوں نے اس بات کی تفصیل نہیں بتائی کہ انہیں کس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’کسی کو بھی ویسا سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ ان کے پاس اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کوئی وکیل یا قانونی نمائندہ بھی نہیں تھا۔ انہیں صرف لڑکیوں کو تعلیم دینے اور پین پاتھ کی مہم چلانے کی وجہ سے قید کیا گیا تھا۔‘
جب طالبان اقتدار میں آئے تو انہوں نے ابتدائی طور پر وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے پہلے دور (1996 اور 2001) کے مقابلے میں مختلف طریقے سے ملک کو چلائیں گے، لیکن اس کے بعد سے انہوں نے انسانی حقوق کی کچھ رعایتیں دی ہیں۔
ذرائع نے ویسا کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کی جیلوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا اور آج تک جاری ہے۔
جب ویسا کو گرفتار کیا گیا تو ان کے بھائی اور پین پاتھ کے شریک بانی عطا اللہ ویسا ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے، جس کے بعد کابل سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ رضاکار نگہت ارم کو راتوں رات پین پاتھ کی سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
ارم نے فون پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہم واقعی بہت خوفزدہ اور صدمے میں تھے۔ ہم طالبان کے تعلیم مخالف موقف کی مخالفت کے شدید خطرات سے واقف تھے لیکن کیا تعلیم ایک عالمی حق نہیں ہے؟ ہمیں توقع تھی کہ بدترین صورت حال میں بین الاقوامی برادری ان کی گرفتاری کو روکنے کے لیے حمایت کرے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ 2009 میں پین پاتھ کے قیام کے بعد سے افغانستان کی تمام حکومتوں نے ویسا کی حوصلہ افزائی اور حمایت کی ہے۔ ’طالبان کو بھی ان حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی۔‘
ایک اور رضاکار کا کہنا تھا کہ گروپ کی پسماندہ پالیسیوں کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ ویسا کی ذاتی مقبولیت نے بھی طالبان کو واضح طور پر ناراض کیا۔
ہالی وڈ سٹار انجلینا جولی نے گذشتہ سال اگست میں ویسا کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے لاکھوں فالورز پر زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ انہیں مناسب قانونی مدد ملے، ان کے ٹھکانے کے متعلق حاصل کریں۔
انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا تھا: ’میں جانتی ہوں کہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک دہائی سے زیادہ حصہ افغان بچوں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں کتابوں تک رسائی اور سکول جانے کے ذرائع اور مواقع کی مدد کرنے کے لیے وقف کر دیا ہے۔۔میں عاجزی کے ساتھ ان تمام لوگوں کے ساتھ اپنی آواز شامل کرتی ہوں جو آپ کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ آپ اپنا اہم کام جاری رکھ سکیں اور لڑکیوں کی تعلیم پر عائد تمام پابندیاں ہٹ سکیں۔‘
ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی، جنہوں نے خود بھی خواتین کی تعلیم کے حق کے لیے فعال طور پر مہم چلائی ہے، نے ویسا کو افغانستان کا ’باچا خان‘ کہا۔ باچا خان ایک فریڈم فائٹر تھے، جنہوں نے خواتین کے حقوق اور تعلیم کے لیے ملک کے برطانوی نوآبادیاتی رہنماؤں سے لڑائی کی۔
تاہم ان کی گرفتاری کے بعد پین پاتھ نے اپنے تمام رضاکاروں سے کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی ختم کر دیں۔ اکتوبر میں ویسا کی رہائی کے بعد سے یہ خاموشی جاری ہے کیونکہ تنظیم سے وابستہ افراد کو طالبان کے ردعمل کے مسلسل خطرے کا سامنا ہے۔
پین پاتھ کی رضاکار عاصمہ خان (شناخت کی حفاظت کے لیے ان کا نام تبدیل کردیاگیا ہے) نے کہا: ’ویسا کی گرفتاری کے بعد، پین پاتھ کی مہم اور ہماری تقریباً تمام سرگرمیاں روک دی گئیں۔ ایک سال بعد بھی صورت حال ویسی ہی ہے۔‘
اس سب کے باوجود، پین پاتھ کے کچھ رضاکار ہیں جو اب بھی اپنی زندگیوں اور اپنے اہل خانہ کے لیے بڑے خطرے کے باوجود اپنے مشن کو چلانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ارم نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہم کسی نہ کسی طرح تقریباً 43 خفیہ سکول چلا رہے ہیں، جن میں 400 اساتذہ ہیں، کیونکہ ہم گاؤں کے بزرگوں اور دیہی خاندانوں میں اپنے پیغامات پھیلا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’موبائل لائبریری کا استعمال کرتے ہوئے اپنی کتابوں کو خفیہ طور پر دور دراز کے دیہاتوں تک پہنچانا مشکل ہے، لیکن ہم یہ کر رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان نے ہم پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن ہم اپنے آن لائن اور خفیہ سکول جاری رکھیں گے۔ ہم دیگر طریقے ڈھونڈیں گے، رضاکاروں کے لیے کچھ سکالرشپس اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔‘
لیکن ایک خوف ارم جیسے ویسا کے سینکڑوں رضاکاروں کو پریشان کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ طالبان ہمارے یا ویسا کے ساتھ زیادہ نرمی نہیں برتیں گے۔ اگر ہم نے قواعد پر عمل نہیں کیا تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔‘
سخت گیر حکومت مطیع اللہ ویسا کی گرفتاری اور پین پاتھ کو مسلسل دھمکانے کو، خواتین کو تعلیم اور افرادی قوت سے دور رکھنے کے ایک بڑے منصوبے کے حصے کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ ارم کہتی ہیں کہ ’اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ طالبان کبھی بھی لڑکیوں اور خواتین کے لیے سکول نہیں کھولیں گے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent