’سب کو مار ڈالو۔‘ یہ الفاظ ایک اعلیٰ امریکی سی آئی اے افسر کے ہیں جو انہوں نے 2002 کے اوائل میں جان کیریاکو کو اسلام آباد روانہ ہونے سے ایک رات پہلے کہے۔
جان کیریاکو کو نائن الیون کے بعد بنائے گئے انسداد دہشت گردی کے خصوصی سیل کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا عہدہ تھا جو امریکہ پر ہونے والے بدترین حملے کے بعد تشکیل دیا گیا۔ جان کیریاکو نائن الیون کو ’انٹیلی جنس کی ناکامی‘ بھی قرار دیتے ہیں۔
جان کیریاکو نے ابتدائی طور پر سی آئی اے کے ساتھ بطور عربی مترجم رضاکارانہ طور پر کام کرتے رہے۔ وہ بچپن میں مشرق وسطیٰ میں رہے تھے اور عربی زبان پر عبور رکھتے تھے لیکن سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر میں اپنے ایک اعلیٰ افسر سے ہونے والی گفتگو نے ان کی سوچ بدل دی۔
انہوں نے ’دا سینٹرم میڈیا‘ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں پاکستان میں ’سب کو مار ڈالو‘ والے حکم کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا: ’میں نے اپنے باس سے پوچھا، واقعی، کیا ہم اس حد تک جا چکے ہیں؟‘
سینٹرم میڈیا سے ایک خصوصی اور دو ٹوک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے ان کی آواز میں 20 سال بعد بھی اس لمحے کی وہی غیریقینی جھلک رہی تھی جس کا انہوں نے اس لمحے سامنا کیا تھا جب انہیں پہلی بار جاسوسی کی بجائے قتل عام کرنے کا حکم دیا گیا۔
کیریاکو اسلام آباد اس مشن کے ساتھ پہنچے کہ القاعدہ کے کارندوں کو گرفتار کریں مگر اگلے چھ ماہ میں جو کچھ ہوا اس نے نہ صرف ان کے امریکہ کے نظریۂ انصاف کو جھنجھوڑا بلکہ انہیں سی آئی اے کی جانب سے لوگوں پر کیے جانے والے تشدد کا راز افشا کرنے والا پہلا سی آئی اے اہلکار بھی بنا دیا۔
اس کہانی کا مرکزی کردار ابو زبیدہ تھا جسے سی آئی اے القاعدہ کا تیسرا اہم ترین شخص سمجھتی تھی اور اسے اسامہ بن لادن تک پہنچنے کا ذریعہ گردانتی تھی۔
فیصل آباد میں ایک خفیہ کارروائی کے دوران سی آئی اے نے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور مقامی پولیس کے ساتھ مل کر ابو زبیدہ کو گرفتار کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جان کیریاکو نے بتایا: ’جب ہم نے اسے پکڑا، تو ہمیں لگا یہ اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر تھی اور ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ اسے ہر صورت زندہ پکڑا جائے۔‘
مگر حقیقت کچھ اور نکلی۔
ابو زبیدہ نہ تو القاعدہ کا رکن تھا نہ ہی کوئی بڑا رہنما۔ ان کے مطابق ’وہ صرف سہولت کار تھا۔ وہ القاعدہ کا نمبر 3 نہیں بلکہ صرف لوگوں کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان آمد و رفت میں مدد دیتا تھا، وہ القاعدہ کے ڈھانچے کا حصہ نہیں تھا۔‘
لیکن ان غلط معلومات کے مضمرات کچھ اور نکلے۔ گرفتاری کے دوران ابو زبیدہ کو گولی مار کر زخمی کیا گیا، پھر ہسپتال کے بستر سے باندھ دیا گیا اور بعد میں گوانتانامو بے منتقل کیا گیا جہاں انہیں واٹر بورڈنگ، دیوار سے ٹکرانے اور تابوت نما بکسے میں قید جیسے اذیت ناک طریقوں سے گزارا گیا۔
جان کیریاکو ہی وہ شخص تھے جنہوں نے ابو زبیدہ سے سب سے پہلے بات چیت کی اور اس کا اعتماد جیتا۔
ان کے بقول: ’میں ابو زبیدہ کے ساتھ 56 گھنٹے بیٹھا۔ وہ رونے لگا۔ اس نے مجھے کہا کہ مجھے مار ڈالو۔‘
جان کیریاکو نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کے ابتدائی سالوں میں سی آئی اے اکیلی نہیں تھی بلکہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس کے لیے پس پردہ ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئی۔
کیریاکو نے بتایا: ’یہ (آئی ایس آئی کے) لوگ میرے بھائی بن گئے تھے۔ وہ نڈر تھے۔ ان کے پاس نہ کوئی بلٹ پروف جیکٹ تھی، نہ خصوصی ساز و سامان، وہ صرف بہادری اور ذہانت سے لیس تھے۔ ان میں سے کئی برطانیہ کی سینڈہرسٹ اکیڈمی سے فارغ التحصیل تھے۔‘
دونوں خفیہ اداروں نے لاہور، کراچی اور کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں درجنوں چھاپے مارے۔ جعلی ناموں سے سیف ہاؤسز کرائے پر لیے گئے۔ مخبر روزانہ آتے جن میں سے کچھ حقیقی معلومات کے ساتھ آتے جب کہ کچھ صرف ڈالروں کے لالچ میں۔
جان کیریاکو نے کہا: ’اکثر آپریشن مشترکہ ہوتے۔ وہ ہمیں مشتبہ افراد، ان کے پتوں اور معلومات تک پہنچاتی۔ ہم نے سینکڑوں لوگوں کو پکڑا۔‘
تاہم ان کے بقول: ’جہاں سی آئی اے تشدد کا راستہ اپناتی وہیں آئی ایس آئی مؤثر انداز میں بغیر مار پیٹ کے سچ نکال لیتی۔ وہ صرف اتنا کہتے کہ ’تم مصیبت میں ہو، سچ بول دو،‘ اور لوگ زبان کھول دیتے۔‘
امریکہ واپسی پر جان کیریاکو کو خفیہ مقامات سے آنے والی رپورٹیں ملیں جنہیں پڑھ کر وہ لرز گئے۔
ان کے بقول ’ابو زبیدہ پر تشدد کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود امریکی افسران کہہ رہے تھے یہ غیر قانونی ہے، ہم استعفیٰ دے رہے ہیں۔ مجھے امید تھی کہ کوئی آواز اٹھائے گا، مگر کسی نے کچھ نہ کہا۔‘
2007 میں جب امریکی حکومت سب کچھ چھپا رہی تھی، جان کیریاکو نے قومی ٹی وی پر آ کر حقائق سے پردہ اٹھایا۔
انہوں نے تین باتیں کہیں، ’سی آئی اے قیدیوں پر تشدد کر رہی ہے، دوسری یہ کہ یہ امریکی حکومت کی باقاعدہ پالیسی ہے اور تیسری یہ کہ یہ سب صدر کی منظوری سے ہو رہا ہے۔‘
لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
’میں سمجھ رہا تھا کہ میں صحیح کام کر رہا ہوں۔ لیکن حکومت میرے پیچھے پڑ گئی۔ مجھ پر جاسوسی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی۔‘
2012 میں انہوں نے اعتراف جرم کر کے 30 ماہ قید کی سزا کاٹی۔
ان کے انکشاف والے انٹرویو کے بعد انہیں سی آئی اے کے ایک سابق نائب سربراہ کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں لکھا تھا: ’تم نے مشکل راستہ چنا ہے، مگر میں خوش ہوں کہ کسی نے یہ قدم اٹھایا۔ کاش مجھ میں اتنی ہمت ہوتی۔‘
کیریاکو کے مطابق اس ای میل نے سب کچھ بدل دیا۔ یہ لمحہ سب کچھ قابل قدر بنا گیا۔
آج اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کو 24 سال ہو چکے ہیں۔ جان کیریاکو اب لیکچرز دیتے ہیں کہ کیسے سی آئی اے کی تربیت نے انہیں قید سے بچنے میں مدد دی اور ’سب سے اہم سبق یہ کہ اپنی ذہنی طاقت کو کبھی کم نہ سمجھو۔‘
لیکن ان کا دل آج بھی ان افراد کے لیے شرمندہ ہے جنہیں بغیر جرم کے پکڑا گیا۔
جان کیریاکو کے بقول: ’میں آج بھی ان لوگوں سے معافی کا طلب گار ہوں، انہیں کبھی انصاف نہیں ملے گا لیکن سچ کبھی چھپ نہیں سکتا۔‘
نوٹ: یہ خصوصی انٹرویو دی سینٹرم میڈیا (ٹی سی ایم) کی سیریز ’سپائی ڈائریز‘ کا حصہ ہے جس میں دنیا بھر کے سابق انٹیلی جنس افسران درپردہ کہانیوں کا انکشاف کرتے ہیں۔