اسرائیل اور آسٹریلیا میں تنازعہ ذاتی تضحیک تک جا پہنچا

آسٹریلوی وزیر داخلہ نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا ہے ’طاقت کا پیمانہ یہ نہیں کہ آپ کتنے لوگوں کو اڑا سکتے ہیں۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو 24 جولائی 2024 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کیپٹل کے ایوان نمائندگان کے چیمبر میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

آسٹریلوی حکومت نے اسرائیل کی سخت تنقید کا جواب دیا ہے، جو وزیر اعظم انتھونی البانیس کے خلاف کی گئی تھی، اس سے قبل بنیامین نتن یاہو نے انہیں ’کمزور‘ قرار دیتے ہوئے ملک کی یہودی برادری سے ’دھوکہ دہی‘ کا الزام عائد کیا تھا۔

غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے آسٹریلیا نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے پر وہ بھی برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔

اسرائیل نے اس اعلان کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے لیے آسٹریلوی نمائندوں کی اسناد منسوخ کر دیں۔ یہ اقدام آسٹریلیا کے وزیر داخلہ ٹونی برک کی جانب سے ایک معروف دائیں بازو کے اسرائیلی سیاستدان کا ویزا منسوخ کرنے کے بعد سامنے آیا، جن پر انہوں نے الزام لگایا کہ وہ ’نفرت کا پیغام پھیلانے‘ کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اب معاملہ ذاتی نوعیت اختیار کر گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے غیر معمولی طور پر سخت عوامی بیان میں مسٹر البانیس پر براہ راست تنقید کی۔

ایکس (سابق ٹوئٹر) پر نتن یاہو کے دفتر نے لکھا: ’تاریخ البانیس کو اس کے اصل روپ میں یاد رکھے گی: ایک کمزور سیاستدان، جنہوں نے اسرائیل سے غداری کی اور آسٹریلیا کے یہودیوں کو تنہا چھوڑ دیا۔‘

اس تبصرے کے جواب میں، بدھ کو ٹونی برک نے کہا: ’طاقت کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ آپ کتنے لوگوں کو اڑا سکتے ہیں یا کتنے لوگوں کو بھوکا رکھ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کو بتایا: ’طاقت کا بہتر پیمانہ وہی ہے جو وزیر اعظم انتونی البانیس نے کیا ہے — یعنی جب کوئی ایسا فیصلہ ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل کو پسند نہیں آئے گا، تو وہ سیدھے بن یامین نتن یاہو کے پاس جاتے ہیں۔‘

بدھ کی دوپہر البانیس نے کہا کہ وہ نتن یاہو کی باتوں کو ذاتی طور پر نہیں لیں گے، کیونکہ نتن یاہو نے دیگر رہنماؤں کے بارے میں بھی اسی طرح کے تبصرے کیے ہیں۔

انہوں نے رپورٹرز کو بتایا: ’گذشتہ پیر کو کابینہ اجلاس سے پہلے ہماری ایک طویل گفتگو ہوئی تھی۔ اس وقت میں نے وزیر اعظم نتن یاہو کو اپنے اور آسٹریلیا کے موقف سے آگاہ کیا … اور انہیں موقع دیا کہ وہ بتائیں کہ سیاسی حل کیا ہے۔‘

’میں ان باتوں کو ذاتی طور پر نہیں لیتا۔ میں سفارتی انداز میں بات کرتا ہوں، اور نتن یاہو نے دیگر رہنماؤں کے بارے میں بھی ایسی باتیں کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بھی سامنے آیا ہے کہ نتن یاہو نے پیر کو البانیس کو ایک خط بھیجا، جس میں کہا گیا کہ آسٹریلوی حکومت ’اس یہود مخالف آگ پر تیل ڈال رہی ہے‘ اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی مذمت کی۔

خط میں لکھا گیا: ’یہ سفارت کاری نہیں، بلکہ خوشامدی رویہ ہے۔‘ یہ خط 17 اگست کو تحریر کیا گیا تھا اور آسٹریلین یہودی ایسوسی ایشن نے اسے عوام کے سامنے جاری کیا۔

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپڈ نے منگل کو کہا کہ مسٹر نتن یاہو کے البانیس سے متعلق تبصرے آسٹریلیا کے لیے ایک ’تحفہ‘ ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا: ’آج کی جمہوری دنیا میں کسی رہنما کو سب سے مضبوط بنانے والی چیز نتن یاہو کے ساتھ ٹکراؤ ہے، جو مغربی دنیا کا سب سے زیادہ زہریلا سیاسی رہنما ہے۔‘

ٹونی برک نے اسرائیلی قانون ساز سمچا روتھ مین کا ویزا منسوخ کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام فلسطینی اور مسلمان آسٹریلوی باشندوں کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے، نہ کہ حماس کی حمایت کے لیے۔

برک نے کہا: ’اگر کوئی شخص عوامی دورے پر آنا چاہتا اور اسرائیلی بچوں کے بارے میں ایسی آرا ظاہر کرتا جیسی یہ شخص فلسطینیوں کے بارے میں کرتا ہے، تو میں اس کا ویزا بھی روک دیتا۔ میں تعصب پر مبنی نظریات کے تحفظ کے لیے کوئی کم معیار نہیں اپناؤں گا، خاص طور پر جب وہ نظریات فلسطینی عوام کے خلاف ہوں۔‘

آسٹریلیا ان ممالک کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جو فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس طرح آسٹریلیا اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147واں ملک بن سکتا ہے۔ یہ اقدام برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی جانب سے حالیہ اعلانات کے بعد سامنے آیا ہے۔

نتن یاہو نے ان تین ممالک کے رہنماؤں — کیئر سٹارمر، ایمانوئل میکروں اور مارک کارنی — پر الزام لگایا کہ وہ ’قاتلوں، ریپ کرنے والوں، بچوں کے قاتلوں اور اغوا کاروں‘ کا ساتھ دے رہے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اسرائیلی فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد اب تک غزہ میں 62 ہزار سے زائد افراد جان سے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ یہ کارروائی حماس کی رہنمائی میں اس روز کیے گئے حملے کے ردعمل میں شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے اور 251 افراد قیدی بنائے گئے تھے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا