اردن کے ولی عہد حسین بن عبداللہ دوم نے اتوار کو اربد گورنریٹ میں نوجوانوں سے ملاقات کے دوران نیشنل ملٹری سروس پروگرام (قومی فوجی خدمات کے پروگرام) کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔
دی نیشنل نیوز کے مطابق یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب اردن غزہ پر جارحیت کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اردن نے 1991 میں ضروری فوجی خدمات ختم کر دی تھیں، جس کے تحت 18 سے 40 برس کے مردوں کے لیے دو سال تک فوج میں خدمات انجام دینا لازمی تھا۔
اردن دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار کرتا ہے اور اس کا واشنگٹن کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی ہے جس کے تحت ہزاروں امریکی فوجی ملک میں موجود ہیں۔
اردن نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ شاہ عبداللہ دوم گارڈنز میں خطاب کرتے ہوئے ولی عہد نے کہا کہ نوجوان اردنیوں کو اپنے ملک کی خدمت اور دفاع کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جنہوں نے فوجی خدمات انجام دی ہیں وہ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ پروگرام قومی شناخت اور نوجوانوں کے اپنے وطن سے تعلق کو مضبوط کرے گا، جبکہ اردنی مسلح افواج میں خدمات انجام دینے سے کردار سازی اور نظم و ضبط پیدا ہو گا۔
شہزادہ حسین نے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس پروگرام کو تیار کرے، جو ایک واضح ٹائم ٹیبل کے مطابق چلایا جائے گا اور مزید تفصیلات کا اعلان کیا جائے گا۔
پیٹرا ایجنسی کے مطابق اس ملاقات میں نوجوانوں کے مسائل پر بھی بات چیت کی گئی، جن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انٹرپرینیورشپ، رضاکارانہ خدمات اور فنی و تکنیکی تعلیم و تربیت شامل ہیں۔
شرکا نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ فعال شہریت کی اقدار کو پروان چڑھائے گا، کردار سازی کرے گا اور قومی شناخت کو مضبوط کرے گا۔
انہوں نے ولی عہد کا شکریہ بھی ادا کیا کہ وہ فنی و تکنیکی تربیتی پروگراموں کی حمایت کر رہے ہیں، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نوجوانوں کو افرادی قوت میں داخل ہونے کے لیے تیار کرنے میں مددگار ہوں گے۔
اردن کے وزیراعظم جعفر حسن نے شہزادہ حسین بن عبداللہ دوم کی جانب سے فوجی خدمات کی بحالی کے اعلان کو قومی اقدار اور نوجوانوں کی ترقی کو مضبوط بنانے کی ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
'گریٹر اسرائیل' کیا ہے اور دنیا کو اس سے کیا خطرہ ہے؟
— Independent Urdu (@indyurdu) August 16, 2025
پاکستان، عرب اور دیگر اسلامی ممالک نے ہفتے کو مشترکہ طور پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے ’گریٹر اسرائیل‘ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ pic.twitter.com/kr6yB1k1jM
اتوار کو منعقدہ کابینہ اجلاس کے دوران حسن نے شاہ عبداللہ دوم اور ولی عہد کی فوجی خدمات کے اقدام کی تیاری کے حوالے سے ان کی کاوشوں اور ہدایات پر حکومت کی جانب سے تشکر کا اظہار کیا۔
حسن نے تصدیق کی کہ حکومت، اردنی مسلح افواج – عرب آرمی کے ساتھ تعاون میں فوجی خدمات کے پروگرام کی تیاری کو حتمی شکل دے گی، جس پر عمل درآمد آئندہ سال کے اوائل میں شروع کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابتدائی مرحلے کے لیے فنڈنگ موجودہ سال کے بجٹ میں ہنگامی اخراجات کی مد سے فراہم کی جائے گی، جبکہ مزید مختصات 2026 کے ریاستی بجٹ میں شامل کی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پروگرام بتدریج نافذ کیا جائے گا اور تمام متعلقہ تفصیلات، جن میں اہلیت، ڈھانچہ اور مقاصد شامل ہیں، آئندہ ہفتوں میں اعلان کی جائیں گی۔
عمل درآمد کو آسان بنانے کے لیے وزیر اعظم نے تصدیق کی کہ حکومت جلد ہی فوجی خدمات اور ریزرو سروس قانون میں ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
دی نیشنل نیوز کے مطابق اردن نے 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔ یہ معاہدہ کرنے والا اردن دوسرا عرب ملک تھا، اس سے قبل 1979 میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد سے اردن نے دو ریاستی حل پر اپنی وابستگی پر زور دیا ہے۔
اس نے اسرائیل کے ان منصوبوں کو مسترد کیا ہے جن کے تحت فلسطینیوں کو غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے بے دخل کیا جانا ہے۔
اسی ماہ اردن نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ان بیانات کی مذمت کی جن میں انہوں نے ’گریٹر اسرائیل‘ کے تصور کی حمایت کی تھی، جس میں بعض عرب ممالک کے حصے بھی شامل ہیں۔