خبر لکھنا بعض اوقات جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف: وزیرستان کے صحافی

جنوبی وزیرستان میں انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن کی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ رپورٹرز کو خبر بھیجنے کے لیے مخصوص مقامات تک جانا پڑتا ہے جہاں وائی فائی دستیاب ہو۔

خیبرپختونخوا کے ضلع وزیرستان کے سینیئر صحافی ملک حیات اللہ محسود کا کہنا ہے کہ شدت پسندی سے متاثرہ اس خطے میں صحافت کے لیے کوئی قانون موجود نہیں اور خبر لکھنا بعض اوقات اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

ڈسٹرکٹ پریس کلب جنوبی وزیرستان اپر کے صدر ملک حیات اللہ محسود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہاں صحافت کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنی موت کا پروانہ خود لکھ رہے ہیں۔ صحافی کے لیے نہ کوئی قانونی تحفظ ہے، نہ سہولتیں۔‘

افغان سرحد پر واقع خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں صحافت گذشتہ دو دہائیوں سے مسلسل خطرات اور چیلنجز کا شکار ہے۔ شدت پسندی اور پسماندگی کے سائے میں یہاں کے صحافی آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

سہولتوں کی شدید کمی

تاہم خیبرپختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں عوام خصوصاً صحافیوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک حیات اللہ نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن کی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ ’رپورٹرز کو خبر بھیجنے کے لیے مخصوص مقامات تک جانا پڑتا ہے جہاں وائی فائی دستیاب ہو۔ وسائل کی کمی کے باعث نوجوان صحافی جدید دور کی ضروریات کے مطابق کام کرنے سے قاصر ہیں۔‘

ملک حیات اللہ محسود نے بتایا کہ صحافیوں کو مقامی شدت پسند گروہوں اور ریاستی قوانین دونوں جانب سے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی انعام محسود کا واقعہ سنایا، جنہیں صرف اس وجہ سے اغوا کر لیا گیا کہ انہوں نے خبر میں ’خوارج‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا: ’اگر ہم ’خوارج‘ لکھیں تو شدت پسند ناراض ہو جاتے ہیں، نہ لکھیں تو ریاستی ادارے سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ دباؤ صحافت کو مزید کمزور کر رہا ہے۔‘

مقامی اور قومی میڈیا کی لاتعلقی

افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد سے بین الاقوامی میڈیا کی دلچسپی اس خطے میں تقریباً ختم ہو چکی ہے اور قومی میڈیا بھی بمشکل یہاں کی خبریں کور کرتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے صرف مقامی میڈیا رہ گیا ہے، جو محدود وسائل کے ساتھ علاقے کی آواز بلند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ملک حیات اللہ نے یہ شکوہ بھی کیا کہ عوام میں یہ تاثر موجود ہے کہ خبر لگانے یا نہ لگانے کے پیچھے مالی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔

ملک حیات اللہ محسود نے مطالبہ کیا کہ حکومت قبائلی صحافیوں کو بااختیار بنائے، انہیں جدید تربیت اور معاشی سہارا فراہم کرے اور تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرے۔ ان کے مطابق، اگر فوری عملی قدم نہ اٹھائے گئے تو وزیرستان میں صحافت مکمل طور پر دم توڑ سکتی ہے۔

’جب تک میڈیا آزاد ہو کر رپورٹنگ نہیں کرے گا اور اصل مسائل سامنے نہیں لائے گا، ان کا حل ممکن نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی