پاکستان انڈیا جنگ اور صحافتی تقاضے

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان انڈیا جنگ کے دوران انڈیا اور پاکستان دونوں جگہ میڈیا صحافتی اقدار سے زیادہ قوم پرستی کا ثبوت دیتا رہا۔

مئی 2025 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ میں انڈین میڈیا نے کئی فیک خبریں پھیلائیں (انڈین میڈیا سکرین گریب)

پہلگام حملے میں انڈین باشندوں کی ہلاکتوں نے انڈین میڈیا کے منہ زور چینلز کو جیسے بےلگام کر دیا۔ انڈیا نے اس واقعے کے لیے ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گردی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا۔

پاکستان نے ان الزامات کے جواب میں انڈیا کو تفتیش میں معاونت کی پیشکش کی، لیکن انڈیا نے اس کے جواب میں عسکری تصادم کو ترجیح دی اور ہم نے دونوں جانب سے ٹکراؤ کو دیکھا۔

اس دوران عوام تک جو بھی خبر پہنچی، وہ چینلوں، ویب، سوشل میڈیا اور اخبارات سے ہم تک پہنچی۔ سوال یہی اٹھتا ہے کہ ان خبروں، اور تجزیوں کی حقیقت کیا رہی اور میڈیا نے اس عسکری تصادم کے دوران کس طرح پیشہ وارانہ صحافتی قدروں کو مدنظر رکھا؟

ایک اندازے کے مطابق یوں تو پاکستانی میڈیا قومی مسائل پہ مختلف زاویوں سے کسی خبر پہ نظر رکھ رہا ہوتا ہے لیکن اس عسکری تصادم کے دوران اکثر نشریاتی ادارے صحافتی تقاضوں سے زیادہ قوم پرستی کا ثبوت دیتے ملے۔ ایک فقدان جو اس دوران شدت سے محسوس کیا گیا وہ یہ کہ رپورٹنگ کا سلسلہ نہیں تھا اور چینلز سٹوڈیو جرنلزم کو فروغ دیتے نظر آئے۔

کہنہ مشق مدیر جانب غازی صلاح الدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگ کے دوران پہلی ہلاکت سچ کی ہوتی ہے، اور میڈیا کسی بھی ملک کا ہو جانب دار ہی ہو کر اپنی خبروں کی ترسیل کرتا ہے۔ لیکن ہمارے موجودہ صحافتی کردار کے بارے مین اگر بات کریں تو عالمی مبصرین نے بھی جنگ کے دوران پاکستان کے میڈیا کے کردار کو سراہا اور ہم اس پر تھوڑا مسکرا لیں تو برا نہیں۔‘

انڈین میڈیا کی صورت حال کچھ ایسی تھی کہ وہ ’گھس کر مارنے‘ جیسی خبریں گرما کر اپنے نشریاتی رابطوں کے ذریعے پینترے آزماتا رہا۔ ٹائمز آف انڈیا، این ڈی ٹی وی، زی ٹی وی وغیرہ سبھی ایک نفرت انگیز پاکستان مخالف بیانیہ آگ کی مانند اگلتے رہے۔

پاکستانی میڈیا اس سے کتنا مختلف رہا، اس کا جواب انڈپینڈنٹ اردو نے سینیئر صحافی عصمت نیازی سے لیا۔ نیازی صاحب کے مطابق، ’حقائق کا پس منظر دیکھا جائے تو توہ پہلگام حملے سے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہوا تھا، جس کا الزام پاکستان نے انڈیا پہ لگایا تھا کہ انڈیا نے بی ایل اے کے ذریعے یہ کام کروایا ہے۔ پھر آرمی چیف کی تقریر سے اشارہ ملا کہ پاکستان جوابی کارروائی کرے گا اور کچھ دن بعد ہی پہلگام کا واقعہ رونما ہوا، اور اس کا لزام انڈیا نے پاکستان پہ لگایا اور دونوں جانب پھر فوجی تصادم عمل میں آیا۔ ڈرون اور میزائل حملوں سے پاک انڈیا نے ایک دوسرے کو جواب دیا۔ دونوں جانب سے مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پہ مبنی بیانیہ سامنے آیا۔ لیکن انڈین بیانیے کو عالمی سطح پہ سپورٹ حاصل نہ ہو سکی۔‘

حقائق اور بیانیہ کے حوالے سے صحافی اعزاز سید نے کہا، ’پاکستان میں حقائق سیلیکٹیو رہ کر عوام تک پہنچائے گئے۔‘ وہ کہتے ہیں، ’بعض ایسے حقائق ہیں جنہیں پاکستانی میڈیا نے بیان کیا لیکن کچھ چیزیں کھل کر سامنے نہیں آئیں، کچھ ایسی باتیں بھی رہیں جس پہ انڈین میڈیا اتراتا رہا لیکن کچھ حقائق کو یا تو نظر انداز کیا یا چھپا گئے۔‘

جہاں تک پاکستان کے ٹی وی اور پرنٹ کے صحافیوں کے پیشہ ور ہونے کی بات ہے تو اعزاز سید سمجھتے ہیں کہ ’ہمارے صحافیوں نے ’پاکستانی‘ ہونے کا کردار ادا کیا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے سچی یا غیر جانبدار جرنلزم کی، اور یوں بھی جب دشمن ملک کے ساتھ آپکی ریاست کی جنگ ہو جائے تو سچی اور آزادانہ صحافت ذرا مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس حقائق نہیں ہوتے۔ کسی بھی عسکری تصادم کی پہلی ہلاکت سچ کی ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کے سفارتی مطمح نظر میں ایک وزن تھا۔ جیسا کے پہلگام کے واقعے کے بعد پاکستان نے تحقیقات میں معاونت کی پیشکش کی اور اس کے بعد پاکستان ہی پر انڈیا نے حملہ کر دیا۔‘

غازی صلاح الدین کا ماننا بھی یہی تھا کہ ’جنگ پردے میں ہوتی ہے اور ہم بھی اس حالیہ عسکری تصادم کے دوران جو بیانیہ اپنے نشریاتی اداروں کے ذریعے عوام تک پہنچاتے رہے وہ ہماری حکومت کا بیانیہ تھا۔‘

عام پاکستانی مبصر کی حیثیت سے ہاؤس وائف قرۃ العین اسد کا ماننا تھا کہ خبروں اور جعلی خبروں کی واضح حقیقت ’ہمیں سوشل میڈیا پہ چل رہی میمز سے بھی آشکار ہو جاتی تھی۔ خبروں کی مکمل جانچ کا فقدان بھی نظر آیا، جیسے کراچی ملیر کینٹ پہ حملے کی خبریں جو غلط ثابت ہوئیں۔ اس کے علاوہ جنگی صورت حال کے باوجود ہر چینل یہ باور کرانے پہ تلا نظر آیا کہ کون سی خبر کس نے سب سے پہلے بریک کی، اور ریٹنگ کے حساب کتاب میں الجھے اینکرز اپنے ڈیوٹیاں کرتے ملے‘۔

اس جنگ کے دوران پاکستانی میڈیا کی رپورٹںگ کو اعزاز سید نے ناقد کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بقول ’ہمارا المیہ یہ تھا کہ جنگ ہو رہی تھی لیکن رپورٹنگ ٹی وی اینکرز سٹوڈیومیں بیٹھ کر رہے تھے۔ حالانکہ رپورٹنگ تو آزاد کشمیر، لائن آف کنٹرول لاہور یا بہاولپور سے ہونا چاہیے تھی۔ سو یہ کمی اپنی جگہ پاکستانی میڈیا پوری نہ کر سکا۔‘

گویا ٹی وی اینکرز نے بیانیہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صحافی لبنیٰ جرار نے حالیہ عسکری تصادم کے دوران ملکی میڈیا پہ حقائق اور بیانیے کی درست ترسیل کے حوالے سے گہری نگاہ رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’پاکستانی میڈیا نے اس تمام عرصے میں انڈین میڈیا کے مقابلے میں بردباری کا مظاہرہ کیا اور حقائق پہ فوکس رکھا۔ ہم نے جذباتی انداز میں بریکنگ نیوز کا بازار گرم نہیں رکھا بلکہ ہمارے تجزیاتی پروگراموں میں بھی کافی حقائق کو سامنے رکھے کے صورت حال پہ تبصرہ کیا گیا۔‘

یاد رہے کہ اس دوران خبریں بھی بےشمار تھیں، زاویے بھی مختلف تھے لیکن حقائق کو پاکستانی میڈیا نے تروڑ مروڑ کے پیش نہیں کیا اور یہی اچھی غیر جانبدارانہ صحافت کی بنیاد ہوتی ہے۔

انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا نے جس انداز سے پاکستان پہ حملوں کی فہرست تیار کر رکھی تھی اور اپنی عوام کے اذہان آلودہ کیے رکھا، اس کی نسبت پاکستانی میڈیا وسوشل میڈیا نے ’فیکٹ چیکنگ‘ یا حقائق کی جانچ پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور جعلی خبروں پہ بڑی حد تک قابو پایا گیا۔

ایسی صورت حال میں جعلی خبروں کی ترسیل پہ قابو پانے کے لیے لائحہ عمل کے بارے میں برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ نے حالیہ پاک انڈیا عسکری تصادم پہ ’فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کے ایک ترجمان نے ’میٹا‘ کے حوالے سے کہا کہ  ہم نے جعلی خبروں کی ترسیل روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جس کے ذریعے غلط خبروں کو سوشل میڈیا سے ہٹایا جا سکا۔ حقائق کی جانچ کرنے والے افراد کی مدد سے ایسی خبروں کی لیبلنگ بھی ممکن بنائی گئی۔‘

گارڈیئن اخبار کی اس رپورٹ کے مطابق، ’جعلی اور غلط خبروں کی بھرمار دونوں ممالک کی طرف سے جاری تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کی یونیورسٹی آف مشی گن کے ایسوسی ایٹ پروفیسرجویو جیت پال نے کہا کہ ’اس بار انڈیا نے تو جیسے حد ہی کر دی تھی۔ یوں تو پاک انڈیا دونوں ممالک میں ہی نیشنلسٹ ایجنڈا کو پروان چڑھانے کا رحجان ہے لیکن اس بار انڈیا نے ضرورت سے زیادہ حقائق کو خراب کر کے پیش کیا۔ اور اس بار ایسی نہج پہ پہنچا دیا تھا کہ دونوں نیوکلر طاقتیں ایک دوسرے کے ٓامنے سامنے ہو سکتی تھیں۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان عسکری تصادم جس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا اور امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے اعلان جنگ بندی نے دونوں جوہری طاقتوں کی افواج کو واپس بیرکوں میں بھیج دیا لیکن اس سب کے باوجود ملکی اور غیر ملکی میڈیا اپنی رپورٹنگ سے دنیا کے ہر کونے میں بیٹھے پاکستانی اور انڈیای باشندوں کو لمح بہ لمحہ آگاہ کرتا رہا۔

بحرین میں مقیم ایک ایسی پاکستانی ہاؤس وائف اور دی نیوزاخبار کی سابقہ صحافی، سمن عباسی نے عالمی میڈیا کی کوریئج کے حوالے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستانی اور انڈین چینلز کو عالمی مبصرین بھی مانیٹر کر رہے تھے کیونکہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن نے بہت زیادہ سر اٹھا رکھا تھا، مثال کے طور پہ پاکستانی سوشل میڈیا نے ایسی خبر بھی دی کہ پاکستان نے انڈیا کے گرڈ سٹیشنوں پہ حملہ کر دیا ہے، انڈین مورچوں پر سفید جھنڈا لہرا دیا گیا ہے اور سائبر حملے بھی کیے گئے ہیں، لیکن حقائق کے جانچ کے بعد پتہ چلا کہ یہ خبریں غلط ہیں۔ لہٰذا دونوں جانب سے جیسے معاملہ گرم رکھنے کے لیے غلط خبروں کو فروغ دینے کی کوشش جاری تھی۔‘

حالات امن کے ہوں یا جنگ کے، میڈیا کا کردار شفاف اور حقائق پہ مبنی ہونا چاہیے، تاکہ عوام کے ذہن آلودہ نہ کیے جا سکیں، ریاست بیانیہ کنٹرول نہ کرے اور ہر دو جانب بھائی چارے کی فضا برقرار رہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ