لاس اینجلس پہنچی تو بارش ہو رہی تھی۔ الیزیا میرے انتظار میں گاڑی لیے کھڑی تھی۔ ہالی وڈ پہنچتے پہنچتے اس نے مجھے عالمی سیاست اور شہباز شریف اور ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی قربت پہ سیر حاصل لیکچر دے دیا۔ سیاست پہ اتنی گرفت ہنگری کے باشندوں کو ہی ہو سکتی ہے۔
بارے ہالی وڈ پہنچی۔ بارش بدستور برس رہی تھی۔ یونیورسل سٹوڈیوز سے چند منٹ کے فاصلے پہ ایک خوبصورت پہاڑی پہ ایمی گھوش کا ہسپانوی طرز کا مکان تھا۔
نچلی منزل پہ گیراج، جہاں ہولی کے رنگوں میں ڈوبی چھتریاں اور بنگالی گھروں کے سینتے ہوئے کاٹھ کباڑ کے درمیان دو دن بعد آنے والی ہولی کے لیے کلکتہ سے لائے ڈھیر دیے بھی رکھے تھے۔
سوٹ کیس گھسیٹ کے دوسری منزل پہ پہنچے، گھر میں اندھیرا تھا۔ ایک پیانو سے ٹکرائے، گھٹنہ سہلاتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکا تو لان میں ایک فوارہ نظر آیا۔ پہاڑوں پہ چھوٹے چھوٹے دو منزلہ گھر گڑیوں کے گھروں کی طرح رکھے تھے۔
بارش کے آبی غبار میں ان پہ جلتی روشنیاں تیزی سے جھلملا رہی تھیں۔ ہوا میں خنکی تھی اور دل خوامخواہ اداس ہو رہا تھا۔
صبح آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا مگر ہوا میں اب بھی بہت خنکی تھی۔ بابل گھوش کے ساتھ ہالی وڈ سائن تک جانے کا ارادہ تھا۔ جادو کی یہ نگری جو آج فلم بینوں اور شوبز سے تعلق رکھنے والوں کے لیے خواب کی بستی ہے ایک رئیل سٹیٹ کے طور پہ آباد ہوئی تھی اور ہالی وڈ کا یہ سائن بھی اسی مقصد کے لیے لگایا گیا تھا۔
گھر سے چلتے ہوئے گلابی جوتے رکھے تھے۔ وزرڈ آف اووز کی ڈورتھی کبھی کبھار جوتوں کے انتخاب میں متاثر کر جاتی ہے۔
ہالی وڈ کی پہاڑیوں پہ درخت تھے۔ ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں اسلام آباد میں ہوتے ہیں، پرندے تھے ایسے ہی جیسے ہر جنگل میں ہوتے ہیں، سانپ بھی تھے جیسا کہ ہر ویرانے میں ہوتے ہیں۔ مگر اس علاقے پہ ایک عجیب سحر سا چھایا ہوا تھا۔
شاید یہ سحر ان سینکڑوں خوش نصیبوں کے مشترکہ نصیب کا سحر تھا جو یہاں بستے ہیں یا ان کی شخصیتوں کا " aura" تھا۔
دور پیسفک چمک رہا تھا اور میرے گلابی جوتے مجھے اڑائے لیے پھر رہے تھے۔
ہمارا ڈرائیور روس، ایکٹر بننے کا خواب لے کر اس شہر میں آیا تھا۔ یہاں قدم قدم پہ ایسے لوگ ملیں گے جو روس کی طرح خواب لیے اس شہر کی گلیوں میں کھاد ہو گئے۔
واک آف فیم پہ ستارے ہی ستارے تھے۔ پوری فٹ پاتھ پہ گلابی چپس کے ستارے بنے ہوئے تھے اور ان کے درمیان ستاروں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ بس ایک ستارے کا نام اس فٹ پاتھ پہ نہیں تھا اور وہ تھے محمد علی۔
سٹوڈیو کے باہر ایک آئس کریم پارلر ہے اس کے قریب دیوار پہ باکسر محمد علی کے نام کا ستارہ کندہ ہے۔ با خدا دیوانہ باش و بامحمڈ ہوشیار۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واک آف فیم سے ایمی گھوش کا گھر قریب ہی پڑتا تھا یوں بھی میں نے گلابی جوتے پہنے ہوئے تھے۔ راستے لمبے نہیں لگ رہے تھے۔ گھر جانے کو دل نہ چاہا اور وہیں سڑکوں پہ پھرتے پھرتے شام سے رات کر دی۔
پردیس کی شامیں اداس کر دیتی ہیں۔ پروین شاکر کے بیٹے، مراد اور مہتاب راشدی کے بیٹے رافع راشدی کی فلم ’دیمک‘ کا پریمیئر بھی تھا۔ پہلے پریمیئر پہ جانے کا ارادہ کیا۔ وہاں پہنچی تو رافع نے کہا، ’آپا دیکھیں بنیادی کردار تو وہی زن مرید‘والے ہیں جو آپ نے میرے لیے لکھا تھا۔ اتنا ظرف بھی کسی کسی میں ہوتا ہے کہ انسپریشن تسلیم کر لے۔
رات گئے واپس آئی تو ایمی گھوش نے آواز دے کر بلا لیا۔ لاؤنج میں ٹیگور کی پورٹریٹ لگی ہوئی تھی اور میز پہ دیوالی کی مٹھائیاں اور نمکین سجے ہوئے تھے۔
میرے پاس ایک ریشمی سکارف تھا جس پہ مضطر خیر آبادی کا شعر لکھا ہوا تھا:
تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے
دیوالی کا اس سے پیارا تحفہ کیا ہو سکتا تھا؟ ایمی دیدی دیر تک مجھ سے غالب کے شعر سنتی رہیں۔ چند لوگ اور بھی موجود تھے۔ ٹیگور، غالب، اقبال، میر، داغ، شیو کمار بٹالوی شعر پہ شعر پڑھا جاتا رہا۔
ہالی وڈ کی پہاڑیوں پہ روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ جی چاہ رہا تھا اس سلیقے سے سجے ہوئے گھر میں ذرا دیر مزید بیٹھوں مگر فلائٹ کا وقت ہو رہا تھا اور پائیدان پہ رکھے میرے گلابی جوتے مجھے بلا رہے تھے۔ مسافر کو ابھی اور دور جانا تھا۔ ایڈوریڈو ابھی اور دور تھا۔
جوتے پہنے، مہمانوں اور میزبانوں سے اجازت لی ٹیگور کی تصویر کے ساتھ ایک تصویر بنائی اور اگلے سفر پہ نکل گئی جو ڈیتھ ویلی تک محیط تھا۔