دنیا کے سب سے بڑے آرٹ میوزیم لوور کے ذخیرے میں تقریباً پانچ لاکھ فن پارے شامل ہیں، جن میں سے لگ بھگ 30 ہزار نمائش پر ہوتے ہیں، اور یہ سالانہ اوسطاً 80 لاکھ سیاحوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔
کسی بھی پیمانے پر یہ میوزیم بہت بڑا ہے، دیکھ بھال کے لیے لوگوں اور اشیا کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ اتوار کے دن خاص طور پر بھیڑ ہوتی ہے۔
دو دن قبل ایک بےحد فلمی واردات میں چار آدمی فلورسنٹ جیکٹیں پہنے، اتوار کی صبح ساڑھے نو بجے سامان ڈھونے والے ایک ٹرک میں لوور پہنچے۔ انہوں نے فوراً کام شروع کیا، سیڑھی دوسری منزل تک اٹھائی، اوپر چڑھے، کھڑکی کاٹ کر گیلری میں داخل ہوئے اور پاور ٹولز لہراتے ہوئے نو نادر نوادرات اٹھا لیے۔
جو اشیا اڑائی گئیں وہ فرانس ملکہ یوجینی کے شاہی زیورات کا حصہ تھیں۔ یہ نپولین سوم کی بیگم اور فنون کی سرپرست تھیں۔
لیکن چوروں کی اصل مشکل چوری کے بعد شروع ہوئی ہے کہ وہ ایسی بےبہا اشیا کے ساتھ کریں گے گیا؟ وہ انہیں پہن نہیں سکتے کیوں کہ اتنی بھاری اور چمچماتی ہوئی ہیں کہ چھپائے نہ چھپیں۔ نہ ہی انہیں قانونی طور پر بیچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر ہر جگہ موجود ہیں۔
چوروں کے نقطہ نظر سے بہترین صورت یہی ہو سکتی ہے کہ زیورات کو توڑ کر قیمتی دھاتیں پگھلا لی جائیں اور جواہرات الگ الگ بیچ دیے جائیں۔
ملزموں نے ملکہ یوجینی کا تاج بھی اٹھایا تھا جسے بعد میں سکوٹروں پر فرار ہوتے ہوئے پھینک دیا۔ اس تاج میں آٹھ سنہری عقاب، 1,354 برلنٹ کٹ ہیرے، 1,136 روز کٹ ہیرے اور 56 زمرد جڑے ہیں۔ مختصر یہ کہ بیچنے کے لیے الگ الگ جواہرات کی خاصی بڑی مقدار بن جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وقت انتہائی اہم ہے
لوور کے لیے کوئی بھی ڈکیتی ایک بڑا دھچکہ ہے۔ اس سے ان کے الیکٹرانک اور انسانی دونوں طرح کے سکیورٹی انتظامات پر سوال اٹھتے ہیں۔ پانچ محافظ قریب ہی موجود تھے جنہوں نے سیاحوں کی حفاظت کو مقدم رکھا اور الارم بھی بجے، لیکن پوری واردات سات منٹ میں مکمل ہو گئی۔
اس قسم کی ڈکیتیوں میں وقت فیصلہ کن ہوتا ہے۔ 2019 میں انگلینڈ کے بلین ہائم پیلس سے 18 قیراط سونے کا ٹوائلٹ چوری ہو گیا جس کا عنوان America (2016) تھا اور جس کے خالق آرٹسٹ ماؤریتسیو کاتیلان ہیں۔ ساڑھے پانچ منٹ میں اڑا لیا گیا۔ اس کا وزن 98 کلوگرام تھا اور وہ مکمل طور پر قابلِ استعمال تھا۔ یعنی جن دو افراد نے اسے اٹھایا (اور بعد میں پکڑے گئے اور قید کی سزائیں بھگتیں) انہوں نے نہایت تیزی اور مہارت سے کام کیا۔ چوری کے وقت صرف سونے کی شکل میں اس کی مالیت تقریباً 60 لاکھ آسٹریلوی ڈالر لگائی گئی تھی۔
ولندیزی پینٹر ونسنٹ ون گوگ کی پینٹنگ The Parsonage Garden at Nuenen in Spring (1884) نیدرلینڈز کے سنگر لارین میوزیم سے 2020 کی کووڈ بندش کے دوران چوری ہوئی۔ اسے 2023 کے اواخر میں ڈچ آرٹ ڈٹیکٹو آرتھر برانڈ کی تحقیق کے بعد بازیاب کر لیا گیا۔
2017 میں آکلینڈ کے انٹرنیشنل آرٹ سینٹر سے گوٹ فریڈ لنڈاؤر کی دو پینٹنگز کی چوری چند منٹ میں مکمل ہوئی۔ چوروں نے نیلام گھر کی اگلی کھڑکی پر گاڑی چڑھا دی جہاں یہ پینٹنگز (جن کی مالیت دس لاکھ نیوزی لینڈ ڈالر تھی) نمائش پر تھیں۔ یہ پورٹریٹس پانچ سال بعد ایک ثالث کے ذریعے معمولی نقصان کے ساتھ برآمد ہوئیں۔
چوری شدہ فن پاروں کی برامدگی
نیشنل گیلری آف وکٹوریا کی پکاسو پینٹنگ Weeping Woman (1937) کو 1986 میں آسٹریلین کلچرل ٹیررسٹس نے چرا لیا، مگر اس کی گمشدگی کا علم دو دن بعد ہوا۔ پینٹنگ دو ہفتے سے کچھ زائد میں برآمد ہو گئی اور اسے سپنسر سٹریٹ ریلوے اسٹیشن کے ایک لاکر میں گیلری کے عملے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس چوری کی محرک وکٹورین فنکاروں کے لیے مالی معاونت کی کمی کو اجاگر کرنا بتایا گیا، لیکن چوروں کی اصل شناخت آج تک معمہ ہے۔
1986 میں مغربی آسٹریلیا کے نیو نورشیا میں بینیڈکٹائن خانقاہ کی گیلری سے مذہبی موضوعات پر مشتمل 26 پینٹنگز چوری ہوئیں۔ لیکن چوروں کی منصوبہ بندی کچی تھی۔ انہیں اندازہ نہیں ہو سکا کہ ان کی گاڑی تین آدمیوں اور بھاری پینٹنگز کا بوجھ اٹھا سکے گی۔ انہوں نے پینٹنگز کو فریموں سے کاٹ دیا گیا، عملاً بگاڑ دیا گیا۔ ایک تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ بعد میں چور پکڑے گئے اور ان پر فردِ جرم عائد ہوئی۔
چور کے لیے اگلا قدم کیا؟
ڈکیتیوں کے بعد اشیا کی برآمدگی کی شرح کم ہوتی ہے۔ اس کی درست تعداد لگانا مشکل ہے مگر بعض کے مطابق دنیا بھر میں آرٹ کی بازیابی شاید صرف دس فیصد تک رہتی ہے۔ پینٹنگز کو آگے بیچنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیوں کہ ان کی ظاہری شکل اس حد تک بدلی نہیں جا سکتی کہ پہچانی نہ جائیں۔
البتہ سونے کے ٹوائلٹ یا زیورات جیسی اشیا میں قیمتی دھاتیں اور جواہرات دوبارہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ لوور سے چوری ہونے والے زیورات واپس ملتے ہیں یا نہیں۔
اس میوزیم کا سب سے مشہور فن پارہ مونا لیزا ہے اور یہ بھی چوروں سے بچ نہیں سکا۔ لیونارڈو ڈا ونچی کی یہ پینٹنگ 1911 میں چوری ہوئی اور دو سال بعد برآمد ہو گئی۔ چور وِنچنزو پیروجا ایک اطالوی مستری تھا جو لوور میں کام کرتا تھا اور اسے پینٹنگ بیچنے کی کوشش میں پکڑا گیا۔
لوور میں ہونے والی یہ تازہ واردات عوامی عجائب گھروں میں موجود اشیا کے تحفظ کی کمزوری کو اجاگر کرتی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ اکثر یہ نوادرات انہی اداروں کو حفاظت کے لیے عطیہ کیے جاتے ہیں۔ جن محافظوں پر ان اشیا کی نگہبانی کی ذمہ داری ہوتی ہے انہیں عموماً کم سے کم اجرت ملتی ہے لیکن ذمہ داری بے حد بھاری ہوتی ہے۔ جب بجٹ میں کٹوتیاں کی جاتی ہیں تو اکثر سکیورٹی سٹاف ہی کم کیا جاتا ہے، جیسا کہ گذشتہ ہفتے آرٹ گیلری آف نیو ساوتھ ویلز کے اعلان میں ہوا۔
لوور کے چور جانتے تھے کہ انہیں کیا چاہیے اور کیوں۔ ہمیں ان کی محرکات کا علم نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ چوری شدہ زیورات فرانس کی تاریخ کا حصہ ہیں اور انمول ہیں۔ ان کی چوری نے سیاحوں کو محروم کر دیا ہے کہ وہ انہیں انفرادی طور پر ان کی خوب صورتی اور دست کاری کے سبب اور اجتماعی طور پر فرانس کی تاریخ کے تناظر میں دیکھ سکیں۔
یہ تحریر دی کنورسیشن پر چھپی تھی اور اس کا ترجمہ یہاں کری ایٹو کامنز کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔