ماضی میں وسطی فلوریڈا کے مہنگے علاقوں میں 200 سے زیادہ گھروں میں نقب لگا کر لوگوں کو خوف زدہ اور چوریاں کرنے والی پھرتیلی خاتون نے بتایا کہ وہ کیسے کئی سال تک سب کی نظروں سے اوجھل رہیں۔
جینیفر گومیز کو، جو اب 41 سال کی ہیں، 2011 میں میریون کاؤنٹی کے اہلکاروں نے طویل تفتیش کے بعد اس وقت گرفتار کیا جب گھروں میں چوری کی متعدد وارداتیں سامنے آئیں۔
گومیز نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً سات کروڑ ڈالر کی اشیا چرائیں۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق ان پر کئی الزامات ثابت ہوئے، جن میں نو چوریاں، بڑی چوری کی ایک واردات اور چوری شدہ سامان کی خرید و فروخت شامل ہے۔
حکام کے مطابق گومیز ان گھروں میں چوری کرتیں جہاں قیمتی سامان ہوتا۔ وہ چوری شدہ زیورات کو فوری رقم کے لیے رہن پر رکھ دیتی تھیں۔
فلوریڈا ڈپارٹمنٹ آف لا انفورسمنٹ کے مطابق خاتون نے تقریباً 10 سال جیل میں گزارے اور فروری 2020 میں رہا ہوئیں۔
رہائی کے بعد گومیز نے یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ’جین جین گومیز‘ کے نام سے کھل کر اپنی زندگی اور مجرمانہ ماضی پر بات کی، جس کی وجہ سے انہیں خاصی توجہ ملی۔
گومیز نے حال ہی میں پوڈکاسٹ ’فلوریڈا فورته سٹیٹ‘ میں نیوز 6 کے اینکرز میٹ آسٹن اور جنجر گیڈسن کے ساتھ اپنی زندگی کے تجربات پر بات کی اور سب سے پہلے یہ کہا کہ لوگوں کو قیاس آرائیاں کرنا چھوڑ دینی چاہییں۔
انہوں نے پوڈکاسٹ میں کہا کہ ’ان علاقوں میں لوگ مجھے دیکھتے، مجھ سے بات کرتے، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے، اور صرف میری ظاہری حالت کی وجہ سے کبھی شک نہ کرتے۔
’ہر وہ شخص جو آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، وہ ویسا نہیں لگتا جیسا آپ کا ذہن سمجھتا ہے۔ اس کی کوئی خاص شکل یا پہچان نہیں ہوتی۔‘
گومیز نے مزید کہا ’میری پرورش بہت اچھی ہوئی۔ میرے گھر کے سب لوگ خوشحال اور سلجھے ہوئے ہیں، سیدھی راہ پر چلنے والے۔
’میری والدہ نیورولوجسٹ اور والد سائیکاٹرسٹ ہیں۔ میں پرائیویٹ سکولوں میں پڑھی۔
’میری زندگی بہت اچھی اور آرام دہ رہی، مجھے بہت سے اچھی مواقع ملے اور میں نے یہ سب کچھ خود ہی ضائع کر دیا۔‘
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کیا کیسے؟ گومیز نے بتایا کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر گھروں کا انتخاب کرتی تھیں۔
زیادہ تر خوشحال مگر انتہائی امیر لوگوں کے گھروں کو نہیں بلکہ ایسے گھروں کو ہدف بناتیں جو امیر تو ہوں لیکن بہت زیادہ امیر نہ ہوں۔
بڑے بنگلے جہاں سکیورٹی کیمرے زیادہ ہوں، ان کے لیے بہت خطرناک تھے۔
ان کے بقول ’امیر لوگ ہمیشہ اپنے سکیورٹی انتظامات دکھانا چاہتے ہیں یعنی سکیورٹی انتظامات کے سٹکرز، نگرانی کے سائن بورڈ، لان میں لگے سائن۔
گومیز نے یہ بھی کہا کہ انہیں وہ گھر زیادہ پسند تھے جو کسی بند گلی میں ہوں یا ایسے راستوں پر واقع ہوں جو سنسان ہوں، تاکہ آسانی سے فرار ہو سکیں۔
گھنے پودے اور پرائیویسی کے لگائی گئی باڑ بھی ان کے لیے اضافی پردے کا کام کرتی تھی۔
’میں ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ ایسا گھر ملے جو بند گلی میں ہو تاکہ اندر جا کر راستہ نہ بھولوں یا ایسا گھر ہو جس کی پچھلی طرف کوئی سڑک ہو۔
’ایسی سڑک نہیں جو بہت بڑی ہو، بس کوئی دو طرفہ سڑک جو محلے سے بالکل باہر ہو کیوں کہ کبھی کبھی جلدی نکلنے کے لیے مجھے باڑ پھلانگنی پڑتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ بارش والا دن چوری کے لیے سب سے بہترین وقت ہوتا تھا کیوں کہ ایسے دن لوگ عموماً گھر سے باہر نہیں ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’فلوریڈا میں اکثر بارش اور نمی رہتی ہے۔ یہ عام بات ہے۔
ایسے دنوں میں لوگ باغبانی نہیں کر رہے ہوتے، گھاس نہیں کاٹ رہے ہوتے، عمارت کی دیکھ بھال کرنے والے نہیں ہوتے، نہ ہی کوئی محلے میں دوڑ رہا ہوتا ہے، اور نہ ہی کوئی ماں اپنے بچے کا سٹرولو دھکیل رہی ہوتی ہے۔‘
گومیز کو گھر کے اندر داخل ہونے کے لیے بھیس کی ضرورت ہوتی تھی، اس لیے وہ میڈیکل سکرب پہن کر خود کو کسی ڈاگ ’میڈ سپا‘ میں کام کرنے والی خاتون ظاہر کرتیں۔
اگر دروازہ نہ کھلتا تو گومیز کھڑکیوں پر دستک دیتیں اور اندر کسی کا نام لے کر آواز لگاتیں تاکہ ایسا لگے جیسے وہ کسی کے بارے میں فکرمند ہیں۔
اگر پھر بھی کوئی نہ آتا تو وہ شیشے کاٹنے والے اوزار استعمال کرتے ہوئے آہستہ سے اندر داخل ہو جاتیں۔ وہ اکثر ماسٹر بیڈ روم کی کھڑکی سے ایسا کرتیں۔
’آپ کا کتا مجھے نہ ڈرائے۔ اگر مجھے پتا چل جاتا کہ گھر میں کتا ہے تو میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی کھانا ساتھ لے جاتی۔
’میں گوشت کا ٹکڑا لے جاتی، چکن لے جاتی، یا گاڑی میں سینڈوچ رکھتی۔ اگر کتا کچھ زیادہ خطرناک لگتا تو میں اسے کھانا دیتی اور یقین کریں وہ بالکل ٹھیک ہو جاتا۔‘
جب پالتو جانور قابو میں آ جاتے تو گومیز تین کمروں پر توجہ دیتی تھیں یعنی ماسٹر بیڈ روم، آفس اور کبھی کبھار گیسٹ روم۔
وہ نقدی، سونا یا دوسرے قیمتی سامان کی تلاش کرتیں اور پھر فوراً وہاں سے نکل جاتیں۔
گومیز کی مجرمانہ زندگی 2011 میں اس وقت ختم ہوئی جب انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
پوڈکاسٹ میں انہوں نے بتایا کہ ان کے جرائم کی اصل وجہ منشیات کی لت اور ایک روسی شخص کے ساتھ خراب تعلقات تھے، جنہوں نے ان کے مطابق انہیں جرم پر اکسایا۔
انہیں ان جرائم پر 10 سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن وہ 2020 میں رہا ہو گئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی بدل لی ہے اور امید ہے کہ ان کی کہانی دوسروں کے لیے سبق بن سکے گی۔
’میں اپنے کیے پر فخر نہیں کرتی، لیکن اگر میری بات کسی اور کو وہی راستہ اختیار کرنے سے روک دے تو شاید اس میں سے کچھ بھلا نکل آئے۔‘
© The Independent