امریکہ کی ایما پر کابل میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش نہیں کر رہے: پاکستان

پاکستان کے وزیر دفاع نے افغانستان کے ان الزامات کو مسترد کر دیا جن کے مطابق اسلام آباد امریکہ کی ایما پر کابل میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے۔

وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف 10 جون، 2025 کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیر کو افغانستان کے ان الزامات کو مسترد کر دیا جن کے مطابق اسلام آباد امریکہ کی ایما پر کابل میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے۔ 

انہوں نے اس دعوے کو ’فضول‘‘ قرار دیا۔ خواجہ آصف کی یہ تردید دونوں ممالک کے درمیان ایک ہفتے تک جاری رہنے والی خونریز سرحدی جھڑپوں کے بعد سامنے آئی۔ 

یہ 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک کا سب سے شدید تصادم تھا، جس میں درجنوں افراد جان سے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ 

دونوں ممالک نے اتوار کو دوحہ میں جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے اور 25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ مذاکرات کریں گے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان زمینی لڑائی اور 2,600 کلومیٹر طویل سرحد کے پار پاکستانی فضائی حملے اُس وقت شروع ہوئے جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے جو مبینہ طور پر افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

عرب نیوز سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کابل حکومت کے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’میں کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ مکمل فضول بات ہے اور کچھ نہیں۔ 

’ہم ایسا کیوں کریں گے؟ ہم پہلے ہی افغان امور میں کافی ملوث رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا ’گذشتہ چار یا پانچ دہائیوں سے ہم کافی بھگت چکے ہیں۔ ہم اب دور رہنا چاہتے ہیں اور ایک مہذب ہمسائے کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے یہ خیال بھی رد کر دیا کہ واشنگٹن طالبان حکومت کو گرانے کی سازش کر رہا ہے۔ 

ان کے بقول طالبان تحریک کے امریکہ کے ساتھ پہلے ہی خوش گوار تعلقات ہیں۔

’اگر وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ وہاں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے تو میری عاجزانہ رائے میں ان کے امریکہ کے ساتھ پہلے ہی آرام دہ تعلقات ہیں۔‘

اسلام آباد طویل عرصے سے کہتا آیا ہے کہ انڈیا افغانستان کے ساتھ مل کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی مدد کر رہا ہے۔ نئی دہلی ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپیں اُس وقت ہوئیں جب افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی انڈیا کے دورے پر تھے۔ 

اس دوران نئی دہلی نے کابل کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا، جس نے پاکستان میں تشویش پیدا کر دی۔

خواجہ آصف نے کہا پاکستان کو افغانستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں، جب تک وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنیں۔

’وہ انڈیا یا کسی اور ملک سے تعلقات رکھ سکتے ہیں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ 

’جب تک وہ اپنے ملک میں جو بھی کرتے ہیں، وہ ہمارے لیے مسئلہ نہیں بنتا، بشرطیکہ اس کے اثرات ہماری سرزمین پر نہ پڑیں۔‘

انہوں نے مزید کہا ’وہ انڈیا سے اتحاد کریں، معاہدہ کریں، تجارت کریں، جو چاہیں کریں، یہ ان کا معاملہ ہے، ہمارا نہیں۔‘

دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ایک نیا مفاہمتی فارمولہ طے پایا ہے جس کے تحت ترکی اور قطر ضامن کے طور پر کام کریں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ٹی ٹی پی اب افغان سرزمین سے کارروائیاں نہ کرے۔

’انہیں (کابل کو) اچھی طرح علم ہے کہ ٹی ٹی پی ان کے علاقے سے کام کر رہی ہے اور غیر رسمی طور پر وہ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ماضی میں وہ انہیں سرحد سے دور کسی اور مقام پر منتقل کرنے پر بھی بات کر چکے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے مزید کہا ’سب کچھ اسی معاہدے پر منحصر ہے اور سب سے اہم شق یہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو ان کی سرزمین سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں فریقین استنبول میں ملاقات کر کے اس معاہدے کے نفاذ کے طریقہ کار کو حتمی شکل دیں گے۔

انہوں نے بتایا طالبان کی واحد درخواست یہ تھی کہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی عزت و وقار کے ساتھ کی جائے۔

’انہوں نے صرف اتنا کہا کہ پناہ گزینوں کی واپسی باعزت طریقے سے ہو۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ انہیں واپس نہ بھیجا جائے۔ یہ معاہدے کا حصہ ہے اور ہم اسے وقار کے ساتھ مکمل کریں گے۔‘

یہ بیان ایسے وقت آیا جب پاکستان میں غیر قانونی افراد کے خلاف ملک گیر مہم تیز کر دی گئی ہے۔ 

حکام کے مطابق 2023 سے اب تک آٹھ لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا ’وہ ہمارے مہمان تھے یا آپ جو بھی کہنا چاہیں، کئی سالوں تک یہاں رہے۔ اگر اب وہ واپس جا رہے ہیں تو ہم ان کے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’وہ ان کی اپنی سرزمین ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ وہاں موجودہ حکومت کے تحت بہتر زندگی گزاریں اور افغانستان میں استحکام اور خوشحالی آئے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا