محاذ آرائی نے پاکستان اور افغان طالبان میں ناقابل عبور خلیج پیدا کر دی

ثالثی اور وقتی جنگ بندی سے شاید وقتی سکون تو آئے مگر اصل تنازعات نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان دہائیوں پر محیط تعلقات میں ایسی دراڑیں ڈال دی ہیں جو شاید اب کبھی بھر نہ سکیں۔

12 اکتوبر 2025 کی اس تصویر میں پاکستانی فوج کو آرٹلری فائر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (سکیورٹی ذرائع بذریعہ ریڈیو پاکستان)

پاکستانی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان حالیہ خونی جھڑپوں نے دونوں ممالک کے تناؤ بھرے تعلقات میں ایک نئے اور خطرناک باب کا آغاز کر دیا ہے جس نے ایک پرانے سلگتے ہوئے تنازع کو بالآخر براہ راست فوجی تصادم میں بدل دیا۔

پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ افغان طالبان دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دیتے ہیں اور یہی بات کشیدگی کو نقطۂ عروج تک لے آئی، جس کے نتیجے میں طاقت کا کھلا استعمال ہوا اور درجنوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروہوں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر اب تک کے سب سے مہلک حملے کیے۔ نو اکتوبر کو کابل میں ایک فضائی حملہ ہوا جس کا الزام طالبان نے پاکستان پر لگایا۔ کہا گیا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا، جسے پاکستان کے خلاف سرحد پار حملوں کا منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ محسود زندہ ہے اور ان کا مبینہ ویڈیو پیغام بھی جاری کیا۔

اس کے جواب میں طالبان فورسز نے پاکستانی چوکیوں پر جوابی کارروائیاں شروع کر دیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان طویل، دشوار گزار اور غیر محفوظ سرحد کے مختلف حصوں پر شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پاکستان نے بھی کابل اور قندھار میں فضائی حملے کیے جن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

یہ مسلح تصادم پاکستان کی سٹریٹجک توقعات کا برعکس نتیجہ تھا۔ 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اسلام آباد کو امید تھی کہ طالبان کی حکومت پاکستان کے لیے دوستانہ ثابت ہوگی اور ٹی ٹی پی کو قابو میں کرے گی مگر ہوا اس کے برعکس۔

اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے طالبان کے اقتدار پر قبضے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔‘  اسی دوران آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض (جو اب کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں) کی ایک متنازع تصویر بھی عالمی میڈیا میں گردش کرتی رہی جس میں وہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد کابل میں چائے پیتے نظر آئے۔

لیکن طالبان کے لیے، جو اپنے نظریاتی اصولوں کے اسیر ہیں، دہشت گرد گروہوں کو لگام دینا ممکن نہیں۔

اب تعلقات بگڑ چکے ہیں۔ پاکستان افغان طالبان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو پناہ اور سہولت فراہم کر رہے ہیں جو بظاہر پاکستان کی سابقہ خارجہ پالیسی کا برعکس نتیجہ ہے۔ طالبان اور ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے کئی براہ راست اور غیر رسمی دور ہوئے تاکہ سرحد پار حملے روکے جا سکیں مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

اس دوران ٹی ٹی پی نے دوبارہ منظم ہو کر اپنے حملے تیز کر دیے جو 2021 میں 573 تھے وہ 2023 تک بڑھ کر 1,200 ہو گئے اور یہ رجحان اب بھی جاری ہے۔

پاکستان شاید افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہری نظریاتی وابستگی کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروہ نہیں سمجھتے اور ان پر ٹی ٹی پی کے احسانات بھی کم نہیں۔ پاکستانی طالبان نے افغان طالبان کے ساتھ امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا، انہیں پناہ اور جنگجو فراہم کیے۔ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ سے بیعت بھی کر چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکمرانوں کی جانب سے ٹی ٹی پی کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کی تصدیق ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی افغانستان کا سب سے بڑا عسکری گروہ ہے جس کے جنگجوؤں کی تعداد چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درمیان بتائی گئی ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق القاعدہ طالبان کے زیر سایہ تربیتی کیمپ چلا رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو جنگجو اور عسکری مدد فراہم کر رہی ہے۔

طالبان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالیں تو یہ گروہ داعش خراسان سے تعاون شروع کر سکتا ہے، جو خود طالبان حکومت کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے اور افغانستان سمیت پاکستان، ایران اور روس میں خونریز حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ہر نئے حملے سے پاکستان اور طالبان کے درمیان بداعتمادی مزید گہری ہو رہی ہے۔ پاکستان اب تک مذاکرات اور کارروائی کے درمیان جھولتا رہا، مگر اب اس کا خیال ہے کہ ’بس بہت ہو گیا‘ اور یہی سوچ افغان طالبان کے ساتھ تازہ تصادم کا باعث بنی۔

یہ مسلح کشیدگی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب طالبان پاکستان کے دیرینہ حریف انڈیا کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہے ہیں۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا نئی دہلی میں شاندار استقبال اور انڈیا کا کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان اسلام آباد میں گہری تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔

انڈیا، جو اب طالبان حکومت کو عالمی سطح پر سفارتی حیثیت دلوانے کے خواہاں ہیں، بظاہر پاکستان کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنے اور افغانستان میں چین کے بڑھتے اثر کو محدود کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

نائن الیون کے بعد افغانستان کی تعمیر نو میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والا انڈیا اب اپنا کھویا ہوا اثر دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ طالبان کے ساتھ اس کی دوستی ایک سوچی سمجھی جغرافیائی چال معلوم ہوتی ہے۔

خونی جھڑپوں کے بعد صورت حال تاحال غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ قطر نے عارضی جنگ بندی میں ثالثی کی ہے مگر طورخم اور چمن کی اہم سرحدی گزرگاہیں بند ہیں جس سے تجارت اور آمد و رفت شدید متاثر ہو رہی ہے۔

یہ سرحد فی الحال ایک خطرناک فلیش پوائنٹ بن چکی ہے، جو افغانستان اور پورے خطے کے لیے مزید عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔

ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں سے متعلق بنیادی تنازع بدستور حل طلب ہے۔ پاکستان طالبان پر بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے کو بھی پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے روابط ٹی ٹی پی سے جڑے ہوئے ہیں۔

یہ نئی دشمنی دونوں اطراف کے لیے بڑے چیلنجز کھڑی کر رہی ہے۔ طالبان جو گوریلا جنگ کے ماہر ہیں، مگر ایک طویل روایتی جنگ لڑنے کے لیے ان کے پاس وسائل اور ٹیکنالوجی کی شدید کمی ہے۔ ان کی اقتدار میں واپسی نہ تو افغانستان میں استحکام لائی اور نہ ہی وہ عالمی سطح پر انہیں کیا گیا جو وہ چاہتے ہیں۔

اندرونی طور پر طالبان حکومت دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور کمزور ہو رہی ہے۔ قیادت سخت گیر قندھاری گروہ (ہیبت اللہ اخندزادہ) اور نسبتاً معتدل دھڑوں (ملا برادر اور حقانی نیٹ ورک) کے درمیان منقسم ہے۔

فی الحال سخت گیر گروہ اقتدار پر قابض ہے جبکہ معتدل اور حقانی دھڑوں کا اثر محدود ہے۔

یہ اندرونی کشمکش شدید معاشی بحران سے مزید بگڑ رہی ہے۔ طالبان حکومت عملی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے جہاں غیر ملکی امداد بند ہے، مرکزی بینک کے اثاثے منجمد ہیں اور سماجی پابندیاں ان کی داخلی گرفت کو کمزور کر رہی ہیں۔

یہ اندرونی بحران بیرونی سطح پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں۔ افغانستان میں مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) اور داعش خراسان جیسے گروہوں کی موجودگی چین، روس اور ایران جیسے علاقائی طاقتوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔

چین ای ٹی آئی ایم کو اپنے جنوبی و وسطی ایشیائی منصوبوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور طالبان پر اس کے خلاف کارروائی کا دباؤ ڈال رہا ہے۔

طالبان کے لیے ان گروہوں کو قابو میں کرنا ایسے ہی ہے جیسے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے لیے بھی صورت حال سنگین ہے، اسے افغانستان اور انڈیا دونوں محاذوں سے دباؤ کا سامنا ہے۔ کابل میں ایک دشمن حکومت کا وجود، خاص طور پر وہ جو نئی دہلی کے قریب ہو، اسلام آباد کے لیے ناقابل قبول ہے۔

ممکن ہے مستقبل میں طالبان پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے تنازع کو دوبارہ ہوا دیں تاکہ پشتون قوم پرستی کے جذبات ابھار سکیں۔ 1947 سے افغانستان اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ تمام پشتون علاقے اس کے ہونے چاہئیں جبکہ پاکستان اسے سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہی تنازع دونوں ممالک کے درمیان مستقل کشیدگی کا باعث رہا ہے، چاہے کابل میں کوئی بھی حکومت رہی ہو۔

حالیہ جھڑپیں پاکستان کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں جہاں طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی سرپرستی کے خلاف ’زیرو ٹالرینس‘ کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک غیر معمولی اور سخت بیان میں کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ ایک دن افغانستان کے عوام آزاد ہوں گے اور ایک حقیقی نمائندہ حکومت کے تحت زندگی گزاریں گے۔‘

یہ بیان طالبان کی حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے اور ماضی کے سرپرستی والے تاثر سے فاصلہ ظاہر کرتا ہے۔

ایک سینیئر پاکستانی سکیورٹی عہدیدار کے بقول: ’ہم نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، مگر شرط یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی سرپرستی بند کریں۔‘

فی الحال افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی کوششیں جاری ہیں لیکن طالبان کے نظریاتی جمود کے باعث دہشت گرد گروہوں پر قابو پانے کی امید کم ہے۔

ثالثی اور وقتی جنگ بندی سے شاید وقتی سکون تو آئے مگر اصل تنازعات نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان دہائیوں پر محیط تعلقات میں ایسی دراڑیں ڈال دی ہیں جو شاید اب کبھی بھر نہ سکیں۔

بشکریہ عرب نیوز

اویس توحید نے ایشیا میں جنگ اور تنازعات پر 30 سال تک رپورٹنگ کی ہے اور طالبان کے عروج و زوال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے بھی رپورٹنگ کر چکے ہیں اور بی بی سی ورلڈ سروس، اے ایف پی اور کرسچین سائنس مانیٹر کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر