کشمیریت عروج پر

جموں کے سابق فوجی کلدیپ شرما نے جب صحافی ارفاز ڈینگ کو پانچ مرلہ زمین بطور تحفہ دینے کا اعلان کیا تو کشمیر کی وہ روایت ایک بار پھر اجاگر ہو گئی، جسے کٹر مذہبی جنونیوں نے بارہا دفنانے کی کوشش کی۔

5 جون 2025 کو سری نگر میں جاکلی آرمی ہیڈکوارٹر میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران جموں اور کشمیر لائٹ انفنٹری کے نئے بھرتی ہونے والے انڈین فوجی سپاہیوں کی حلف برداری تقریب کے دوران مختلف مذاہب کے نمائندے اپنی مقدس کتابیں تھامے چل رہے ہیں (توصیف مصطفیٰ / اے ایف پی)

جموں کے سابق فوجی کلدیپ شرما نے جب صحافی ارفاز ڈینگ کو پانچ مرلہ زمین بطور تحفہ دینے کا اعلان کیا تو کشمیر کی وہ روایت ایک بار پھر اجاگر ہو گئی، جسے کٹر مذہبی جنونیوں نے بارہا دفنانے کی کوشش کی۔

انڈیا میں حالیہ دنوں میں عدالتی انصاف کے بجائے بلڈوزر انصاف کی سیکنڑوں مثالیں ملتی ہیں، جہاں اقلیتوں کے گھر بغیر عدالتی آرڈر کے منہدم کروائے جاتے ہیں، زمینوں سے بے دخل کیا جاتا ہے یا پھر شہریت چھینی جا رہی ہے۔

جموں و کشمیر کا معاملہ بقیہ انڈیا سے مختلف ہے، یہاں ہر جائز اور ناجائز کارروائی امن و عامہ کے زمرے میں ڈال کر سوال اٹھانے کا حق بہت پہلے چھینا جا چکا ہے۔ ایک جانب بندوق برداروں اور ان کے رشتہ داروں پر قہر نازل کیا ہوا ہے کہ ان کی، رشتہ داروں کی ملازمت چھیننے کے علاوہ ان کے گھر ڈھائے بھی جا رہے ہیں دوسری جانب بیشتر معصوم لوگ بھی اس کی زد میں آتے ہیں جس کی تازہ مثال جموں کے صحافی ارفاز کی ہے، جن کا گھر منہدم کرنے کا کوئی ایسا بڑا جواز بھی نہیں تھا۔

40 برس بعد اگر انتظامیہ ان کے گھر کو ڈھانے کے لیے جاگ گئی تو اس کو عداوت یا ناکردہ گناہوں کی سزا کے مترادف ہی مانا جائے گا۔

بعض رپورٹوں کے مطابق ارفاز نے منشیات کے دھندے میں شامل پولیس افسروں اور تاجروں کو بے نقاب کیا ہے۔

ارفاز کے گھر کو منہدم کرنے کی ذمہ داری اب بھی کوئی لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔

چونکہ اس غیر انسانی حرکت کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی لہذا حکمران جماعت نینشنل کانفرنس کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے بھی اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔

پھر بی جے پی کے لیے جموں میں یہ خبر مزید درد سر کا باعث بنی جب ایک سابق ہندو فوجی نے مسلمان کے لیے اپنی زمین وقف کی، یعنی مذہب کی بنیاد پر منقسم کرنے کا پارٹی کا ایجنڈا اتنی محنت کے بعد فیل ہوا اور وہ بھی جموں و کشمیر میں، جس کو وہ پورے ملک میں گرما گرم کیک کی طرح بیچ رہی ہے۔

میڈیا نے بڑی جرات کر کے سابق فوجی کی زمین وقف کرنے کی خبر تو چلائی مگر اس کو دوبارہ سانپ سونگھ گیا، جب شوپیان کے مسلمان تاجر محمد اقبال شاہ نے سابق فوجی کے پانچ مرلہ زمین کے بدلے میں انہیں دس مرلہ بطور تحفہ دینے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہاں ایک طرف میڈیا اس بھائی برادری کی روایت کو سنبھال نہیں پا رہا تھا، وہیں ہندو جماعتیں اپنی انتہاپسند پالسیوں پر دوبارہ سکتے میں آگئیں کیونکہ گمان تھا کہ ’ہم نے تو سب کی سوچ بدل ڈالی ہے مگر یہ کیا کہ اب بھی ہندو مسلمان ایک دوسرے پر اپنی جان اور جائیدادیں نچھاور کر رہے ہیں۔‘

ہندو انتہا پسندوں کو یہ باتیں کہاں ہضم ہوتی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنی خرافات پھیلانے لگے، جس کی روٹیاں وہ گذشتہ 15 برسوں سے سینک رہے ہیں۔

جموں و کشمیر میں ایک بار پھر اس انتہا پسند سوچ کو شکست ملی اور ان روایات میں دوبارہ روح پھونکی گئی، جنہیں پامال کرنے میں جنونیوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

اندرون کشمیر میں آج بھی مختلف برادریاں ایک دوسرے کے قریب رہتی ہیں، شادی بیاہ یا تہواروں میں شریک رہتے ہیں لیکن وہ میڈیا کے لیے خبر نہیں بلکہ خبر یہ ہے کہ کہاں کس مسلمان نے کس سے شادی کی تو ’لو جہاد‘ بنا دو، کس نے برقعہ پہنا تو آتنک وادی سوچ بتا دو یا کس نے کون سا گوشت فرج میں رکھا ہے تو حلال پر پانبدی لگا دو جو بظاہر ان چینلوں کے لیے پیش کردہ ایجنڈا ہے اور ہدایت دی ہو گی کہ اقلیت کو خوفزدہ کرنے کے لیے ساتوں پہر اسے ہی گھساتے رہو تاکہ اکثریت کے دماغ میں یہ بات گھر کر لے کہ اقلیت سے چھٹکارا کیسے حاصل کرنا ہوگا۔

مگر بظاہر تو لگتا ہے کہ ہندو کٹر پرستوں کے ایجنڈا کی شیلف لائف ختم ہوا ہی چاہتی ہے، منشور تقریباً مکمل ہوچکا ہے، اب وہ نئے موضوعات کی تلاش میں سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر کچھ نہیں ہے تو ان کو نشانہ بناتے ہیں، جو ابھی انسانیت رکھتے ہیں۔

حیرانی اس بات پر ظاہر کی گئی کہ جموں و کشمیر کے ہائبرڈ نظام میں اب یہ بھی طے کرنا مشکل ہے کہ یہ کاروائی نینشنل کانفرنس کی لولی لنگڑی حکومت نے کی یا بی جے پی کے مقرر کردہ ایل جی منوج سنہا نے کی۔ دونوں نے دو ٹوک کہا کہ ان کا صحافی کا گھر ڈھانے میں کوئی کردار نہیں۔

اس بات کے پیش نظر عوام اب جنوں بھوتوں کو تلاش کرنے لگے کہ شاید ہائبرڈ نظام میں آسیب زدہ روحیں بھی شامل ہوچکی ہیں، جو جموں و کشمیر پر حکمران ہیں۔

اس خطے نے صدیوں سے کئی نظام دیکھے جو خود زوال کا شکار ہوگئے مگر جو باقی رہا وہ ہے اس کی کشمیریت اور انسانیت، جو اس مٹی میں اتنی پیوست ہے کہ پورے انڈیا میں کشمیر میں اسلامی جہاد کا ڈھنڈوارا پیٹ کر بھی سیکولر روایت ابھر کر آ رہی ہیں اور انتہا پسند ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر