دبئی سٹیڈیم میں ہونے والے ایشیا کپ 2025 کے فائنل میچ سے قبل پاکستان اور انڈیا کے شائقین سوشل میڈیا اور نیوز پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں شائقینِ کرکٹ کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔
اتوار کو عام طور پر آرام کا دن سمجھا جاتا ہے، لیکن ایشیا کپ 2025 نے مسلسل تین اتواروں کو ’کرکٹ کے میلے‘ میں تبدیل کر دیا ہے اور کرکٹ شائقین کہتے ہیں کہ اتوار اب صرف چھٹی کا دن نہیں رہا بلکہ ’انڈیا پاکستان ڈے‘ ہے۔
اگرچہ اس ٹورنامنٹ میں اس سے قبل بھی دونوں ٹیمیں سپر فور مرحلے میں آمنے سامنے آچکی ہیں، تاہم 1984 میں شروع ہونے والے ایشیا کپ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ فائنل میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر سے تعلق رکھنے والے محقق اور کرکٹ کے دلدادہ اخلاق الرحمان میر نے انڈیا اور پاکستان کے میچ کو ’جذبات، توقعات اور قومی فخر کی علامت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہر گیند اور ہر رن پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں آنکھیں جمی ہوتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’اگر پاکستان اور انڈیا کے میچ میں جوش و خروش نہ ہو تو کون سا میچ ہوگا۔ کرکٹ کو تمام کھیلوں کی ماں کہا جاتا ہے اور اس کھیل کی سب سے بڑی کشش یہ ہے کہ جب یہ دونوں ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو نہ صرف پورا ایشیا بلکہ پوری دنیا کی نظریں اس پر ہوتی ہیں۔‘
اخلاق الرحمان میر کہتے ہیں کہ فائنل میں انڈیا پر زیادہ دباؤ ہو سکتا ہے۔ ’انڈین ٹیم نے اب تک ٹورنامنٹ میں مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے گذشتہ دونوں میچوں میں پاکستان کو شکست دی تھی، اس لیے تماشائیوں اور ماہرین کا انڈیا پر توجہ مرکوز کرنا فطری ہے۔‘
دوسری طرف پاکستان نسبتاً کمزور رہا ہے لیکن میر کا خیال ہے کہ پاکستان اکثر ’کرو یا مرو‘ کے حالات میں بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔ ’یہ اس کی اصل طاقت ہے۔‘
انہوں نے تجزیہ دیا کہ ’اگر پاکستان انڈیا کو شکست دینا چاہتا ہے تو انہیں اپنے کھیل کی سطح کو بلند کرنا ہوگا۔ انڈیا کی بیٹنگ لائن اپ مضبوط ہے اور ٹاپ آرڈر بلے باز ابھیشیک شرما اور شبھمن گل خاص طور پر بہترین فارم میں ہیں۔ اگر پاکستان کی باؤلنگ پاور پلے میں انہیں آؤٹ کرنے میں کامیاب رہی تو انڈیا مشکل میں پڑ سکتا ہے۔‘
اخلاق الرحمان سمجھتے ہیں کہ فخر زمان اور شاہین شاہ آفریدی پاکستان کے لیے اہم کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ’فخر زمان اپنے جارحانہ انداز سے میچ کا رُخ بدل سکتے ہیں جبکہ شاہین ابتدائی اوورز میں وکٹیں لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ انڈیا کے ٹاپ بلے بازوں کو جلد آؤٹ کر سکتے ہیں تو پاکستان کے امکانات مضبوط ہوں گے۔
’دوسری جانب انڈیا کے پاس ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو کسی بھی صورت حال میں کھیل کا رُخ موڑ سکتے ہیں۔ جسپریت بمراہ اپنی تیز گیند بازی سے مخالف ٹیم پر دباؤ ڈال سکتے ہیں جبکہ ابھیشیک شرما اپنی جارحانہ بلے بازی سے میچ میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
یہ میچ نہ صرف ایک ٹورنامنٹ کا حصہ ہوگا بلکہ دونوں ممالک کی کرکٹ تاریخ میں یادگار بھی ثابت ہوگا۔ اخلاق الرحمان میر کے مطابق: ’تماشائی اس میچ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں اور بلاشبہ یہ کرکٹ کے حقیقی رنگوں کو سامنے لائے گا۔‘
عادل احمد راتھر شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ابھرتے ہوئے کرکٹر ہیں۔ وہ گذشتہ پانچ برسوں سے کرکٹ کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کے ساتھ ان کی وابستگی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے پسندیدہ کھلاڑی ویرات کوہلی ہیں، جسے وہ اپنی محنت، جفاکشی اور بیٹنگ کے انداز کی وجہ سے آئیڈیل مانتے ہیں۔
عادل کے مطابق موجودہ وقت میں پاکستانی ٹیم خاصی کمزور نظر آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی دنیا بھر میں مشہور پاکستانی بولنگ نے اپنی دھاک بٹھائی تھی، لیکن اب وہ تیز دھار کھو بیٹھی ہے۔ بیٹنگ لائن بھی منتشر اور غیر مستحکم دکھائی دیتی ہے۔
عادل احمد نے کہا کہ ’گذشتہ دو میچوں میں پاکستان کے بلے باز انڈین گیند بازوں کے سامنے ٹک نہ سکے اور امکان ہے کہ فائنل میں بھی منظر نامہ مختلف نہیں ہوگا۔ موجودہ انڈین ٹیم دنیا کی سب سے مضبوط ٹیموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی بیٹنگ میں گہرائی ہے، بولنگ میں تنوع اور فیلڈنگ میں پھرتی نمایاں ہے۔ یہی خصوصیات انڈیا کو دوسری ٹیموں سے ممتاز کرتی ہیں۔‘
فردوس احمد ایک پرجوش کرکٹ شائق ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ’کرکٹ کو کھیل کی طرح ہی لینا چاہیے، نہ کہ کسی جنگ یا دشمنی کے طور پر۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو شائقین کے جذبات عروج پر ہوتے ہیں، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آخرکار یہ محض ایک کھیل ہے۔ جیت اور ہار کھیل کا حصہ ہیں اور دونوں ٹیمیں بہترین کھیل پیش کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔‘
فردوس احمد نے مشورہ دیا کہ شائقینِ کرکٹ کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیم کی حمایت کریں مگر ساتھ ہی مخالف ٹیم اور اس کے کھلاڑیوں کا احترام بھی کریں۔ ’جس طرح میدان سے باہر انڈین اور پاکستانی عوام ایک دوسرے سے خوش اخلاقی اور بھائی چارے کے ساتھ پیش آتے ہیں، بالکل اسی رویے کو کھیل کے دوران بھی اپنانا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کھیل کو کھیل ہی رہنے دینا سب کے لیے بہتر ہے، کیونکہ کھیل کا مقصد لوگوں کو قریب لانا، خوشی بانٹنا اور صحت مند مقابلے کو فروغ دینا ہے۔‘