ایشیا کپ کی 41 سالہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان اور انڈیا فائنل میں آمنے سامنے

انڈیا اگر اپنی حالیہ برتری برقرار رکھتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ روایتی حریف اب کھیل کے میدان میں ان کے برابر نہیں لیکن اگر پاکستان نے 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیسی کارکردگی دہرائی تو تاریخ ایک بار پھر ان کے حق میں پلٹ سکتی ہے۔

ایشیا کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آج پاکستان اور انڈیا فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے، جس نے دبئی انٹرنیشنل سٹیڈیم کو کرکٹ کی دنیا میں توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

41 برس بعد دونوں روایتی حریف ایک ہی ٹائٹل کے لیے براہِ راست میدان میں اتریں گے۔ اگرچہ انڈیا پہلے ہی دو بار پاکستان کو اس ٹورنامنٹ میں شکست دے چکا ہے، لیکن اتوار کا فائنل اصل معرکہ ہے جس پر سب کی نظریں جمی ہیں۔

یہ صرف ایک اور پاکستان۔انڈیا میچ نہیں بلکہ اس بار معاملہ سیاسی کشیدگی، سفارتی معاملات اور میدان سے باہر کی تلخیوں سے جڑا ہوا ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان ہاتھ نہ ملانے کا تنازع، جملوں کی جنگ اور آئی سی سی کی جانب سے جرمانے، اس مقابلے کو محض کھیل سے کہیں زیادہ بڑا بنا چکے ہیں۔

انڈیا کی برتری اور دباؤ

سوریا کمار یادو کی قیادت میں انڈیا نے ٹورنامنٹ میں مسلسل فتوحات حاصل کیں اور پاکستان کو دونوں بار آسانی سے ہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اب روایتی مقابلہ بھی نہیں رہا‘ کیونکہ نتائج یکطرفہ ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 لیکن اتوار کے فائنل میں یہی بات انڈیا کے لیے دباؤ بن سکتی ہے۔ اگر اس بار پاکستان نے بازی پلٹ دی تو انڈیا کی پچھلی کامیابیاں بے معنی ہو جائیں گی۔

انڈیا کے بیٹنگ آرڈر میں شبھمن گل پر خاصی نظر ہے، جو اگرچہ ہر اننگز میں اچھے لگے ہیں لیکن بڑی باری کھیلنے میں ناکام رہے ہیں۔

دوسری طرف اوپنر ابھیشیک شرما شاندار فارم میں ہیں اور لگاتار نصف سنچریاں بنا کر کوہلی، روہت اور سوریا کمار کے ریکارڈ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

بالنگ میں جسپریت بمرا اور شیوَم دوبے کی واپسی انڈیا کے لیے حوصلہ افزا ہے، جبکہ ہاردک پانڈیا اور ابھیشیک کے معمولی فٹنس مسائل کو سنبھال لیا گیا ہے۔

پاکستان کی مشکلات اور امیدیں

پاکستان کے لیے یہ فائنل حالیہ ناکامیوں کے داغ مٹانے کا موقع ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں انڈیا کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ انتہائی کمزور ہے: 15 میں سے 12 شکستیں۔ اس کے باوجود کپتان سلمان آغا کی ٹیم نے بنگلہ دیش کے خلاف شاندار واپسی کی اور سیمی فائنل جیسا مقابلہ جیت کر فائنل میں جگہ بنائی۔

پاکستانی بولنگ میں ابرار احمد اس ٹورنامنٹ کے سب سے کفایتی بالر ثابت ہوئے ہیں، جن کی ایوریج اکانومی چھ سے بھی کم ہے، تاہم انڈیا کے خلاف ان کی کارکردگی دو انتہاؤں پر رہی، ایک میچ میں صرف 16 رنز دیے جبکہ دوسرے میں 42۔ پاکستان کے لیے یہ طے کرنا اہم ہے کہ انہیں کب اور کس مرحلے پر استعمال کیا جائے۔

شاہین شاہ آفریدی کی فارم بھی بحث کا موضوع ہے۔ انہوں نے اس ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر نو وکٹیں حاصل کی ہیں لیکن انڈیا کے خلاف وہ اب تک ناکام رہے ہیں۔ گذشتہ چار میچوں میں صرف ایک وکٹ اور 14 اوورز میں 120 سے زیادہ رنز دینا ان کے اعدادوشمار کو تشویش ناک بنا دیتا ہے۔

دوسری جانب صائم ایوب ایشیا کپ کی 6 اننگز میں 4 مرتبہ صفر پر آؤٹ ہوئے، جس کے بعد وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے والے دوسرے کھلاڑی بن گئے ہیں۔

سیاسی اور جذباتی پس منظر

یہ ایشیا کپ صرف کرکٹ نہیں بلکہ خطے کے سیاسی ماحول کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔ انڈیا نے اپنی حکومت کے مشورے پر پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کیا، جس نے آئی سی سی کے اجلاسوں اور جرمانوں کو جنم دیا۔ دبئی میں شائقین کی دلچسپی پہلے دو اتوار کو کچھ ماند رہی، لیکن اس بار منتظمین مکمل ہاؤس فل کی توقع کر رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق کپتان محمد رضوان کا مشہور جملہ ’ہم یا تو جیتتے ہیں یا سیکھتے ہیں‘ اس فائنل میں ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان جیتتا ہے تو یہ ان کے لیے بڑے حوصلے کی بات ہو گی، اگر ہارتا ہے تو وہ کم از کم یہ ثابت کریں گے کہ وہ خطے کی دوسری بڑی ٹیم ہیں۔

دونوں ٹیموں کی ممکنہ پلیئنگ الیون

پاکستان (امکان): صاحبزادہ فرحان، فخر زمان، صائم ایوب، حسین طلعت، محمد نواز، سلمان آغا (کپتان)، فہیم اشرف، محمد حارث (وکٹ کیپر)، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، ابرار احمد۔

انڈیا (امکان): ابھیشیک شرما، شبھمن گل، سوریا کمار یادو (کپتان)، تلاک ورما، سنجو سیمسن (وکٹ کیپر)، ہاردک پانڈیا، شیوَم دوبے، اکشر پٹیل، کلدیپ یادو، ورون چکرورتی، جسپریت بمرا۔

اعدادوشمار اور دلچسپ حقائق

۔ انڈیا نے پچھلے چار ایشیا کپ میں سے دو میں بغیر ہارے ٹائٹل جیتا ہے۔

۔ ارشدیپ سنگھ نے اس ٹورنامنٹ میں 100 ٹی ٹوئنٹی وکٹیں لینے والے پہلے انڈین بولر کا اعزاز حاصل کیا۔

۔ پاکستان کے حارث رؤف 17 وکٹوں کے ساتھ مشترکہ ٹاپ وکٹ ٹیکر بنے ہیں۔

۔ دبئی میں گذشتہ پانچ برس میں ٹی ٹوئنٹی کا اوسط سکور 156 رہا ہے، جو سپنرز کے کردار کو اہم بنا دیتا ہے۔

پاکستانی کپتان سلمان آغا کہتے ہیں کہ ’یہ کہنا غلط ہو گا کہ انڈیا–پاکستان میچ دباؤ والا نہیں ہے۔ فائنل کا دباؤ ہمیشہ مختلف ہوتا ہے اور دونوں ٹیموں پر یکساں ہو گا۔‘

انڈیا اگر اپنی حالیہ برتری برقرار رکھتا ہے تو یہ ان کے لیے ایک اور ٹرافی ہو گی اور اس بات کا ثبوت کہ روایتی حریف اب کھیل کے میدان میں ان کے برابر نہیں، لیکن اگر پاکستان نے 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیسی کارکردگی دہرائی تو تاریخ ایک بار پھر ان کے حق میں پلٹ سکتی ہے۔

اتوار کا دن فیصلہ کرے گا کہ ایشیا کی کرکٹ کی سب سے بڑی طاقت کون ہے، انڈیا یا پاکستان!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ