جموں و کشمیر کے حلقہ بڈگام کے انتخابات دلچسپ بن گئے ہیں کیونکہ اس بار انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی حلقے کی حساسیت، آبادی اور جذبات کو مدنظر رکھ کر ایسا امیدوار کھڑا کرنے پر مجبور ہوئی ہے جس کے جیتنے کا امکان زیادہ ہو۔
بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں کشمیر سے محض علامتی امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے بعض کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی، تاہم اس بار پارٹی بڑی تیاری سے میدان میں کودی ہے تاکہ وادی میں اس کا کھاتہ کھلے۔
بڈگام کی اسی نشست پر وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اسمبلی انتخابات جیتے تھے، لیکن انہوں نے گاندربل کی نشست کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جس پر ان کے افراد خانہ ہمیشہ انتخابات جیتے رہے ہیں۔
عوامی حلقوں میں ان انتخابات کو نیشنل کانفرنس کے لیے سخت امتحان تصور کیا جا رہا ہے جو تقریباً ایک سال قبل اسمبلی انتخابات میں 50 سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے انتخابی منشور میں آرٹیکل 370 کی بحالی کے بارے میں وعدہ کیا تھا جس پر اسے بھاری مینڈیٹ ملا۔
اُس وقت انتخابی مہم چلانے میں رکن پارلیمان آغا روح اللہ نے کلیدی کردار ادا کیا اور عوام بالخصوص نوجوانوں کی اندرونی خودمختاری کو واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کو منظم طریقے سے چلانے کا عہد کیا تھا۔
عمر عبداللہ کی حکومت ابھی تک ریاست کا درجہ تک حاصل نہیں کر پائی۔ اندرونی خودمختاری کی بات وہ کرتے نہیں، جس پر آغا روح اللہ نے اپنی پارٹی کو کئی بار شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ وہ کسی امیدوار کی حمایت نہیں کریں گے جس کے بعد نائب وزیر اعلیٰ سریندر چوہدری نے ان کے خلاف سخت کلمات کہے۔
بڈگام حلقہ انتخاب میں اہل تشیع مسلمانوں کی اکثریت ہے، انتخابی امیدوار کا تعلق مختلف جماعتوں سے کیوں نہ ہو مگر یہ سبھی تقریباً ایک ہی خاندان سے منسلک ہوتے ہیں۔
اس وقت بھی تین بڑی جماعتوں کے امیدوار آغا خاندان سے ہیں۔
نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور بی جے پی نے تین آغاؤں کو کھڑا کر کے ووٹروں کے لیے مصیبت کھڑی کر دی ہے کہ وہ ایک ہی خاندان کے کس فرد کو ترجیح دیں۔
رکن پارلیمان آغا روح اللہ پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں کہ وہ کس رشتہ دار کی حمایت کریں گے اور جس کی جیت میں روح اللہ کا بڑا کردار ہو گا، مگر انہوں نے اپنی پارٹی کے امیدوار کی بھی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بی جے پی نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ووٹ کم کرنے کے لیے آغا خاندان سے امیدوار کھڑا کیا اور علاقے کی دوسری چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں سرگرم ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ بڈگام میں ہمیشہ ایک ہی فرقے سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو کیوں چنا جاتا ہے۔
ویسے کشمیر میں فرقوں میں بٹنے کی کوئی روایت نہیں جس کی مثال آغا روح اللہ کی ہے، جنہیں پارلیمانی انتخابات میں تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والوں نے ووٹ ڈالے اور انہیں کامیابی دلائی۔
موجودہ انتخابات میں دوسری چھوٹی جماعتوں کے امیدوار بھی ہیں لیکن یہاں آغا خاندان کے سامنے باقیوں کا زور نظر نہیں آتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعض لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ہی خاندان کے افراد کو کیوں یہ حق ہے کہ وہی انتخابی امیدوار بنیں اور جیت بھی اُن ہی کی ہو۔
اس روایت کو توڑا بھی جا سکتا تھا لیکن سیاسی جماعتیں ہارنے کا خطرہ مول نہیں لیتیں۔
بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ بیشتر ادارے یہاں فرقہ پرستی کی دراڑ پیدا کر کے کشمیر میں بے چینی پھیلانے کے درپے ہیں۔
پھر نیشنل کانفرنس کو ٹکڑے کرنے کا خواب بھی پالا ہوا ہے اور جس کے لیے کئی ہاتھوں میں روڈ میپ دیا گیا ہے۔
مگر بڈگام کے ووٹر محمد حسین کہتے ہیں کہ چونکہ اس علاقے میں آغا خاندان کا کافی اثر رسوخ ہے لہٰذا ہر پارٹی اسی خاندان کے افراد کو چنتی ہے، اس میں سب سے زیادہ کامیابی کا عنصر غالب رہتا ہے۔
محمد حسین کے پڑوسی وقار احمد کہتے ہیں کہ جس طرح شیخ عبداللہ کی چار نسلیں ابھی تک ہم پر مسلط ہیں اسی طرح آغا خاندان بڈگام پر کئی دہائیوں سے مسلط رہے گا۔
خاندانی راج کہاں ختم ہوا ہے بلکہ جمہوریت کا لباس پہن کر یہ زیادہ مضبوط بن گیا ہے، ابھی ہماری چار نسلوں پر دونوں خاندانوں کی گرفت برقرار رہے گی۔
گو مقابلہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی میں رہےگا مگر اس بار بی جے پی نے اپنا نیا تیر چلاکر ایسا شکار تلاش کیا ہے کہ سیٹ تو بہرحال خاندان میں ہی رہے گی مگر کیا پتہ کہ بڈگام کا رنگ کیسری نہ ہوجائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔