پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ابھرنے والے احتجاجات کو محض وقتی یا واقعاتی ردِعمل سمجھنا سطحی تجزیہ ہو گا۔ درحقیقت یہ ایک گہری سیاسی، نفسیاتی اور وجودی کیفیت کا اظہار ہے، جو خطے کی نئی نسل کی سوچ اور اجتماعی شعور میں تیزی سے پنپ چکی ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ عوام خصوصاً نوجوان اب روایتی سیاسی نعروں اور وعدوں سے مطمئن نہیں، بلکہ وہ اپنے مستقبل پر حقیقی اختیار کے متلاشی ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اس وقت کی حکومت کا ردِعمل اس بڑے اور تاریخی واقعے کی سنگینی کے مطابق نہیں تھا۔ اس موقع پر جس جرات مندانہ اور متناسب اقدام کی توقع کی جا رہی تھی، وہ سامنے نہ آ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری عوام نے اپنے آپ کو ایک تنہائی، خلا اور بے بسی میں محسوس کیا۔ یہ احساس رفتہ رفتہ بیگانگی میں بدلا اور آج احتجاجی نعروں اور جلوسوں کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ موجودہ اضطراب دراصل اسی گہری محرومی اور عدم شمولیت کا تسلسل ہے، جس نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان کی آواز کہیں سنی نہیں جا رہی۔
اس پورے منظرنامے میں کشمیر کی قیادت اور حکمران اشرافیہ کا کردار سوالیہ نشان ہے جس نے اپنے آپ کو دانستہ محدود کر لیا اور اپنی آواز مؤثر انداز میں بلند کرنے سے احتراز برتا۔ یہ خودساختہ احتیاط یا خاموشی اس سوچ کا سبب بنی کہ کشمیر کا اصل موقف کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ عوام نے اپنی قیادت کو بڑی حد تک غیر متعلق سمجھنا شروع کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل اب اپنی آواز خود بلند کرنے کے راستے تلاش کر رہی ہے، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کے نمائندے ان کے جذبات اور مطالبات کی صحیح عکاسی کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔
یہاں یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ کشمیری عوام پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تاریخی اور جذباتی تعلق کو اپنی شناخت کا ایک لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔ تاہم ان کی خواہش یہ ہے کہ یہ تعلق یک طرفہ یا محض رسمی وابستگی پر مبنی نہ ہو بلکہ ایک باہمی وقار اور برابری پر مبنی تعلق میں ڈھل جائے۔
وہ چاہتے ہیں کہ ان کی آواز کو احترام اور سنجیدگی سے سنا جائے۔ کشمیری عوام پاکستان سے اپنی جذباتی وابستگی کی تائید اور اعتراف چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے بجائے ایک ذمہ دار، باہم اور باعزت رشتے کے خواہاں ہیں، تاکہ ان کے حقوق، مطالبات اور خواہشات بھی اس رشتے میں برابر کی اہمیت کی حامل ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیر کی نوجوان نسل آج کے حالات کو ایک مختلف زاویے سے دیکھ رہی ہے۔ ان کے نزدیک ریاستی خودمختاری ایک مشکل اور تقریباً ناقابلِ حصول خواب ہے، کیونکہ خطے کی بین الاقوامی حیثیت اور بھارت کے سخت گیر اقدامات نے اس راستے کو مزید دشوار بنا دیا ہے۔ اسی لیے نوجوان زیادہ زور عوامی حاکمیت پر دے رہے ہیں۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ اگر ریاستی خودمختاری ممکن نہیں تو کم از کم انہیں اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کے فیصلوں پر اختیار ہونا چاہیے۔ یہی سوچ انہیں احتجاجی سیاست کی طرف لے جا رہی ہے اور یہی رویہ آج کی تحریک کی اصل بنیاد ہے۔
اس سوچ کو مزید تقویت اس وقت ملی جب مقامی حکومتی ڈھانچے نے عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کمزوری دکھائی۔ بے روزگاری کا بڑھنا، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کی زبوں حالی، انفراسٹرکچر کی پسماندگی اور انصاف تک محدود رسائی نے عوامی محرومی کو مزید گہرا کیا۔ اس کے برعکس، حکومتی سطح پر عوام کو یہ تاثر ملا کہ اصل توجہ مسائل کے حل پر نہیں بلکہ مراعات، پروٹوکول اور وسائل کے غیر ضروری استعمال پر ہے۔ عوام کو یہ یقین ہو گیا کہ ریاستی ڈھانچہ چند خاندانوں اور اشرافیہ کے مفاد میں زیادہ سرگرم ہے، نہ کہ عام عوام کی فلاح کے لیے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ محض روایتی سیاسی جماعتوں پر انحصار کر کے اس بحران کو سنبھالنے کی کوشش مزید بے نتیجہ ہوگی۔ یہی جماعتیں برسوں سے اسی ڈھانچے کا حصہ رہی ہیں جس نے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی دکھائی اور عوام انہیں اس پسماندگی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ لہٰذا اگر موجودہ بے چینی کے جواب میں صرف انہی پر زیادہ بھروسہ کیا گیا تو یہ عوامی غصے کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا سکتی ہے۔ عوامی بیگانگی و اضطراب کا حل ایک نئے اور تخلیقی سیاسی عمل میں پنہاں ہے، نہ کہ پرانے نعروں اور روایتی ڈھانچوں کی تکرار میں۔
یہاں ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے جو زیادہ نظریاتی اور وجودی ہے۔ کشمیر کی حیثیت بذاتِ خود ایک liminal status رکھتی ہے۔ وکٹر ٹرنر کے مطابق liminality وہ کیفیت ہے جب کوئی فرد یا گروہ نہ مکمل طور پر ایک طرف کا ہوتا ہے اور نہ ہی دوسری طرف کا، بلکہ ایک عبوری اور غیر یقینی کیفیت میں معلق رہتا ہے۔
کشمیر اور اس کے عوام کی حیثیت کچھ ایسی ہی ہے۔ یہ خطہ نہ ایک مکمل خودمختار ریاست ہے اور نہ پاکستان کا صوبہ۔ یہی درمیانی کیفیت عوام کے لیے وجود اور عدم کے بیچ ایک مستقل کشمکش کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس عبوری حیثیت نے ان کی شناخت کے سوال کو اور زیادہ نازک اور حساس بنا دیا ہے۔ نوجوانوں کے لیے یہ شناختی کشمکش محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک شناختی، نفسیاتی اور سماجی حقیقت بن گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ احتجاجات میں صرف معاشی یا سماجی مطالبات نہیں بلکہ شناخت، حاکمیت اور اپنی تقدیر پر اختیار کے سوالات بھی شامل ہیں۔ جب نوجوان یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی آواز مؤثر طور پر نہ مقامی حکومت تک پہنچ رہی ہے اور نہ اسلام آباد میں نمایاں ہو رہی ہے تو ان کے اندر یہ یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ اپنی طاقت اور آواز کو منظم انداز میں ظاہر کرنا ہی ان کے لیے واحد راستہ ہے۔
آگے بڑھنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ عوامی مطالبات کو سنجیدگی سے سنا اور ان کے مطابق اقدامات کیے جائیں۔ نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، تعلیم اور صحت کے نظام کو بہتر بنانا اور انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا ایسے اقدامات ہیں جو اس بیگانگی کو کم کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ کشمیر کے آئینی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب عوام دیکھیں گے کہ ان کی اسمبلی اور ادارے حقیقی معنوں میں فیصلے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو ان کا ریاست پر اعتماد بھی بڑھے گا اور ان کے دلوں میں یہ احساس بھی پیدا ہوگا کہ وہ محض تماشائی نہیں بلکہ فیصلے کرنے والے ہیں۔
یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ کشمیر عالمی سطح پر ایک بڑے تنازع یعنی مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ ایسی متنازعہ حیثیت میں کوئی بھی غیر دانشمندانہ قدم، جیسے طاقت کا استعمال یا عوامی آواز کو دبانے کی کوشش، مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ عوامی جذبات کو مثبت سمت دی جائے اور نوجوانوں کو اعتماد میں لے کر ان کے ساتھ ایسا مکالمہ قائم کیا جائے جس سے انہیں اپنی شراکت کا حقیقی احساس ہو۔
اس تناظر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت پربھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مطالبات پیش کرتے وقت غیر معمولی احتیاط برتیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی تخریبی یا پاکستان مخالف عنصر کو اپنی تحریک میں سرایت نہ کرنے دیں، ورنہ اس تحریک کی اخلاقی ساکھ اور سیاسی وقعت متاثر ہوگی۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بغیر قیادت کے چلنے والی تحریکیں خطرناک اور دو دھاری تلوار ہوتی ہیں: اگر یہ عوامی شعور اور نظم و ضبط کے ساتھ چلیں تو مثبت نتائج دے سکتی ہیں، لیکن اگر ان میں انتشار یا موقع پرستی سرایت کر جائے تو یہ اپنے اصل مقصد کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
یہ لمحہ کشمیر کے عوام اور ریاست دونوں کے لیے ایک چیلنج کے ساتھ ساتھ ایک موقع بھی ہے۔ اگر آئینی فریم ورک میں عوامی حاکمیت اور شراکت داری کو تقویت دی جائے، نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شامل کیا جائے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور مقامی اداروں کو مضبوط بنایا جائے تو نہ صرف موجودہ بے چینی میں کمی آئے گی بلکہ یہ خطہ زیادہ پرامن اور بااعتماد مستقبل کی طرف بڑھ سکے گا۔ یہی راستہ ہے جو عوامی خواہشات کے بھی قریب ہے اور وسیع تر قومی اور بین الاقوامی تقاضوں کے بھی مطابق ہے۔
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔