پاکستانی کشمیر میں حکومت اور مظاہرین میں بدستور ڈیڈلاک، کشیدگی برقرار

حکام کا کہنا ہے کہ حکومت جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹ’38 میں سے 36 مطالبات پہلت ہی تسلیم کر چکی ہے۔‘

عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) کے ارکان 29 ستمبر 2025 کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک مظاہرے میں شریک ہیں: (اے ایف پی)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وفاقی حکومت کے ساتھ مطالبات پر ڈیڈلاک کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے پوری ریاست میں لاک ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی اور منگل کو بھی اس علاقے میں کشیدگی برقرار ہے۔

صحافی ندیم شاہ کے مطابق پیر کو مختلف جگہوں پر احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات میں ایک شہری جان سے گیا جبکہ 27 سے زیادہ کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

حکومت نے احتجاج سے نمٹنے کے لیے اتوار دن 12 بجے سے پوری ریاست میں انٹرنیٹ، موبائل اور لینڈ لائن سروس مکمل بند کر رکھی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ’پرتشدد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کو قانونی کارروائی کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

کمیٹی کے 38 مطالبات ہیں جن میں اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا اور کشمیر میں پن بجلی میں رائلٹی شامل ہیں۔

تاہم سب سے متنازع مطالبہ، جس پر حکومت کے ساتھ ڈیڈلاک ہے وہ ان 12 نشستوں کے خاتمے کا ہے جو جموں و کشمیر کے مہاجرین کے لیے قانون ساز اسمبلی میں مخصوص ہیں۔

دوسری جانب عسکری ذرائع کے مطابق عوام نے کمیٹی کی احتجاجی کال کو مسترد کر دیا، جس کے بعد ’کمیٹی کے شرپسندوں نے پُرامن شہریوں پر حملہ کیا۔‘

گذشتہ برس نومبر میں ایکشن کمیٹی نے پہیہ جام ہڑتال کر کے راستے بند کر دیے تھے۔

کمیٹی نے پیر مظفر آباد اپر اڈا میں ایک اجتماع اکٹھا کیا جس میں شرکا نے حکمرانوں اور ریاستی مشینری پر شدید تنقید کی، جبکہ کمیٹی کے عہدے داروں نے رات 12 بجے سے ریاست بھر کے تمام داخلی مقامات بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کمیٹی کا دعوی ہے کہ ’پرامن احتجاج پر ریاست کی جانب سے طاقت کا استعمال کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ دنوں پاکستان کے وفاقی وزرا انجینیئر امیر مقام اور طارق فضل چوہری نے کمیٹی کے ایک وفد سے 14 گھنٹے مذاکرات کیے تھے جو ناکام رہے۔

وفاقی وزرا کے مطابق ’پریس کانفرنس میں وہ مطالبات مان لیے گئے جن کا تعلق عوامی مفاد سے تھا، تاہم وہ معاملات جن کے لیے آئینی ترامیم پارلیمان کی جانب سے قانون سازی درکار ہو، چند افراد کی طرف سے بند کمرے میں طے نہیں کیے جا سکتے۔ اسی لیے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آئین سے متعلق مطالبات پر وقت مانگا گیا لیکن کمیٹی نے انکار کر دیا۔ دو دن قبل وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا تھا کہ آئینی مطالبات تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی مظاہرین سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا احتجاج ختم کر دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت پہلے ہی 38 میں سے 36 مطالبات تسلیم کر چکی ہے۔‘

مئی 2024 میں آزاد کشمیر میں مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان کئی روزہ جھڑپوں میں کم از کم تین مظاہرین اور ایک پولیس افسر کی جان گئی جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے بھی ہوئے تھے۔

یہ مظاہرے اس وقت ختم کر دیے گئے جب پاکستان نے 8 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی سبسڈی کا اعلان کیا اور علاقائی حکومت نے گندم کے آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان