کشمیر میں داخل ہونا جتنا مشکل ہو گیا ہے اتنا ہی واپس نکلنا بھی۔ جس جوش، خلوص اور جذبے سے کشمیری تارکین وطن ہر سال اپنے گھر وادی پہنچ جاتے تھے اب نہ وہ ولولہ ہے اور نہ وہ احساس۔
لگتا ہے کہ جیسے آسیب نے اس خوبصورت اور روح پرور مقام کو نگل لیا ہے۔ کشمیر کا درد، کرب اور ذہنی انتشار ایک بڑی آبادی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
سکھ اور ڈوگرہ دور کے بدترین حالات میں بھی ایسا انتشار نہیں دیکھا گیا جیسا آج کل محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن واپس آنے والوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ وادی میں رہنے والے باہر کے راستے تلاش کرنے لگے ہیں۔
بقول خالد صدیقی
یہ کیسی ہجرتیں ہیں موسموں میں
پرندے بھی نہیں ہیں گھونسلوں میں
کچھ ایسی ہوا ضرور چلی ہے کہ ہر کوئی تلاشِ روزگار کے لیے بیرونی دنیا کی جانب دیکھنے لگا ہے، جو چند دہائی قبل تک کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔ بدلتے حالات کے پیش نظر عوام مختلف وسوسوں اور خدشات میں گھرتے جا رہے ہیں۔
90 کے پُرآشوب دور اور پرتشدد حالات کے باوجود بیشتر تارکین وطن نے کشمیر سے تعلق برقرار رکھنے کے لیے نہ تو اپنی زمینیں، باغات یا مکان بیچے تھے اور نہ نئی املاک خریدنے سے گریز کیا تھا۔ بلکہ تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد نے جائیدادوں کے ساتھ نجی صحت اور تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اپنا سارا سرمایہ کشمیر میں خرچ کیا تھا جس کے باعث روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے تھے۔
اب ایک نیا رجحان دیکھا گیا کہ اکثر تارکین وطن اپنی املاک کو بیچ رہے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
کشمیری پنڈتوں کے ایک لاکھ سے زائد خاندان 90 کی عسکری تحریک کے دوران کشمیر سے نکلنے پر مجبور ہو گئے تھے جن میں سے بعض خاندان حال ہی میں واپس آئے ہیں۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد انڈیا کے بیشتر تاجر، ہوٹلوں کے مالک، نجی صحت اور تعلیم کے ٹھیکے دار وادی میں بڑی املاک خرید کر اس کے مالکانہ حقوق حاصل کر رہے ہیں۔ ریل، فضائی اور زمینی راستوں کی بہتری سے انڈیا اور کشمیر کے بیچ واقعی دوری ختم ہو گئی ہے مگر عوام کی ریل پیل یا سیاحوں کی آمد سے کشمیر کی زبان، کلچر اور ثقافت تیزی سے اپنی آخری سانسیں گن رہی ہیں۔
ایک دہائی بعد کشمیر ’کاسمیر‘ ہو گا اور اس کی آبادی ڈیڑھ ایک ارب آبادی میں تحلیل ہو گئی ہو گی۔ حیرت ہے کہ میڈیا نے کبھی اس کی جانب توجہ نہیں دی اور مقامی میڈیا کو ایسا کچھ لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
آبادی کا تناسب بدلنے کا عمل سرعت سے جاری ہے اور کشمیری قیادت اس میں برابر کی شریک ہے۔
اس وقت تجارتی سطح پر کئی بڑے تاجر کشمیر میں مصروفِ عمل ہیں جن کی پشت پر خود کشمیری سیاست دان اور تاجر ہیں جنہوں نے سرکردہ سیاست دانوں کے ساتھ شراکت داری میں کشمیر کی زمینوں، جنگلوں اور معدنیات کا سودا کیا ہے اور جو دن رات مرکزی قیادت کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔
وادی کے ایک معروف روزنامے کے ایڈیٹر کہتے ہیں کہ ’جموں و کشمیر میں صرف وہی تجارت کر سکتا ہے یا بڑی جائیداد کا مالک بن سکتا ہے جس کی پیٹھ پر مرکزی قیادت ہو گی، ورنہ یہاں کے اکثر مقامی تاجر دبئی کا رخ کرنے لگے ہیں یا یورپ میں اپنی قسمت آزمائی کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔‘
سری نگر ایئرپورٹ پر 70 برس کی فہمیدہ غنی (نام سکیورٹی کے باعث بدل دیا گیا ہے) سے میری ملاقات ہوئی جن کے والدین نے وراثت میں ایک بڑی جائیداد چھوڑی تھی۔ فہمیدہ نے بچوں کے لیے کئی تعلیمی ادارے تعمیر کیے اور مغربی طرز پر کشمیری بچوں کو جدید تعلیم سے متعارف کرایا۔ چند برس پہلے انہوں نے انڈین شہریت چھوڑی، سکول بیچ دیے، وراثتی جائیداد رشتہ داروں میں بانٹ دی۔ ایک زمانے میں ان کے نام پر کروڑوں کی جائیداد تھی، آج نہ کہیں ان کا ایڈریس ہے اور نہ کوئی جائیداد۔ بچے پہلے ہی امریکہ کے شہری بن چکے ہیں، 20 افراد پر مشتمل فہمیدہ کا خاندان کشمیر سے خود بے دخل ہو گیا۔
میں نے پوچھا، کم از کم ایک فلیٹ تو رکھ سکتی تھیں تاکہ وطن کے ساتھ ایک رشتہ رہتا؟
فہمیدہ کی آنکھیں برس پڑیں اور رندھے ہوئے گلے سے بولیں: ’2019 کے بعد حالات نے سب کچھ بیچنے پر مجبور کر دیا۔ سکول کو چلنے نہیں دیا گیا، نئے قوانین کی بھرمار نے ہمیں مفلوج بنا دیا۔ ایک جانب سرکار کی زور زبردستی، دوسری جانب اپنے ہی لوگوں کی خودغرضی، رشتہ داروں کی لالچ اور سیاست دانوں کا رعب داب۔ کس کس سے لڑتی، کس کس سے چھٹکارا حاصل کرتی؟ جب اپنے ہی لوگ چور اور قاتل بنے ہیں تو غیروں سے کیا گلہ؟ ذہنی دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت جواب دے گئی تو سب کو چھوڑ چھاڑ کر ہمیشہ کے لیے جانے کا فیصلہ کر لیا، اللہ کو شاید یہی منظور تھا۔‘
ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ چکی تھیں۔ درد و کرب کی لکیریں چہرے پر عیاں تھیں۔ بوتل سے پانی کے گھونٹ پی کر وہ گلے کی خراش کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں یا جذبات کا بند پھٹنے سے روک رہی تھیں، میرے لیے اس کا اندازہ کرنا انتہائی مشکل تھا۔
آغا شاہد نے بھی اپنی بے بسی کا تذکرہ اپنی مشہور نظم ’دی کنٹری ود آؤٹ پوسٹ آفس‘ میں کیا تھا جس کی واہ واہ دنیا نے کی مگر ان کی نظم میں چھپے کرب کو کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
فہمیدہ کی طرح درجنوں خاندان کشمیر سے ہجرت کر چکے ہیں جبکہ ہزاروں غیر کشمیری وادی میں آباد ہو رہے ہیں جن کی مکمل تفصیل ملنا مشکل ہے مگر گلی کوچوں میں راہ چلتے آپ اس کا خوب اندازہ لگا سکتے ہیں جب بعض علاقوں میں غیر کشمیری زیادہ جبکہ مقامی لوگ کم نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیر میں بہار، اُڑیسہ یا اترپردیش سے لاکھوں مزدور آتے رہتے ہیں یا انتظامیہ میں بڑے افسروں کی اچھی خاصی تعداد تعینات ہوتی تھی۔ آج مزدوروں کے ساتھ سیاحت، زراعت، ہوٹل، پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ میں غیر کشمیریوں کی ایسی بھرمار ہے کہ جیسے ڈوگرہ دور پلٹ کے واپس آ چکا ہے جب کشمیری مسلمان صرف بے روزگار یا جبری مزدور کا حق دار سمجھا جاتا تھا۔
جس مہاراجہ کے خلاف کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ نے آزادیِ ہند کی قیادت بالخصوص گاندھی اور نہرو کے کہنے پر ’کشمیر چھوڑ دو‘ تحریک شروع کی تھی، آج اس شیخ عبداللہ کو تاریخ کے اوراق سے غائب کر دیا گیا ہے۔ ان کے جنم دن یا یومِ وصال کی سرکاری چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں اور ان کے نام سے مشہور اداروں پر ہندوتوا کی تلوار لٹک رہی ہے۔
آج لال چوک میں مہاراجہ کی مورتیوں کو تاج پہنائے جا رہے ہیں، ان کے جنم دن یا یومِ وفات منائے جا رہے ہیں، تو ایسے میں سرکار سے سوال تو بنتا ہے کہ سامراجی قوت یا راجے مہاراجوں کے خلاف انڈیا میں جو تحریکیں چلی تھیں کیا وہ سب غلط تھیں یا پھر صرف کشمیری قوم کو مہاراجہ کے خلاف مہم چلانے کی سزا دی جا رہی ہے؟
سماجیات کے استاد پروفیسر فیض اسلم کہتے ہیں کہ ’تارکین وطن کوئی بھی ہو یا کسی بھی مذہب یا خطے سے تعلق رکھتا ہو، دیارِ غیر میں رہ کر وہ انتہائی حساس اور کلچر کانشس بن جاتا ہے۔ اپنے وطن میں تباہی دیکھ کر وہ اس تباہی کو ختم کرنے کا تہیہ کرتا ہے یا پھر سب کچھ تیاگ کر تپسیا پر بیٹھ جاتا ہے۔‘
بیشتر کشمیری تارکین وطن سب کچھ تیاگ رہے ہیں، جڑیں، کلچر، زبان، زمین اور جائیداد۔ کیونکہ جب زبان پر پہرے ہوں، قلم زنجیروں میں جکڑ لیا گیا ہو اور اپنی ہی گلیوں میں چلنے پر پابندی ہو تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ سب کچھ تیاگ دینا صحیح فیصلہ ہے اور آسمانی مداخلت کا انتظار کرنا چاہیے؟
افتخار عارف نے شاید ہمارے ہی حالات کی عکاسی کی تھی
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔