اگر کشمیر جیسی خوبصورت وادی کو افواہ بازی کا گڑھ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ویسے بھی ہمیں مبالغہ آمیزی کی صفت وراثت میں ملی ہے۔
افواہ پھیلانا یا اس کا لطف اٹھانا کوئی ہم سے سیکھے، ہم ایک پل میں گدا گر کو بادشاہ بناتے ہیں اور ایک بادشاہ کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔
یہ ہنر صدیوں پرانا ہے اور مورخ اس ہنر کو ہماری صدیوں پر محیط غلامی سے جوڑتے ہیں۔
غلامانہ ذہنیت اور مسلسل ظلم و جبر سے خلاصی پانے کے لیے ہم نے افواہ بازی کو خوب پالا اور خود کو زندہ رکھا۔
مورخ سر آریئل سٹائین اور والٹر لارینس نے کشمیریوں کی ان صفات کی درجنوں مثالیں تحریر کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مقامی باشندے ہر دور میں وقت کی مناسبت سے افواہیں پھیلاتے اور پریشانیوں سے چند لمحوں کے لیے نجات حاصل کرتے۔
افغان اور سکھ دور میں یہ افواہیں پھیلائی جاتی تھیں کہ ان کے کارندے گھروں میں جاکر خوبصورت لڑکیوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں۔ بقول مورخین کشمیری سر شام گھروں کو باہر سے تالے لگا کر اپنی غیر موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔
کہتے ہیں کہ مخصوص طبقہ جسے افغان حکمرانوں سے خاصی مراعات ملتی تھی، وہی ان کے خلاف بازاروں میں انہیں بدنام کرنے کے درپے تھا۔
افواہوں کا بازار اس وقت زیادہ گرم دکھائی دیتا ہے جب حکمرانوں یا سرکاروں کی زیادتیوں سے بچنے کے لیے تفریح کا سامان تلاش کیا جانا مقصود ہوتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر زینہ کدل کو اسی لیے نام دیا گیا ہے کہ سری نگر کا ڈاؤن ٹاؤن علاقہ زینہ کدل افواہوں کا منبع تصور کیا جاتا رہا ہے جہاں سے افواہوں سمیت حکمرانوں کے خلاف حکمت عملی کا روڈ میپ بھی طے کیا جاتا تھا- یہ سلسلہ سن 90 کی پرتشدد شورش کے بعد ذرا سا مدھم پڑ گیا۔
ہمارے کردار میں مبالغہ آمیزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہم دس کو ہزار اور ہزار کو دس کہنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتے بلکہ مونچھوں پر تاؤ دے کر بڑی آسانی سے جھوٹ بولتے ہیں۔
مبالغہ آرائی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جب ہم کشمیر جیسی چھوٹی جگہ کا موازنہ دنیا سے کرتے ہیں۔ البیرونی نے اس کا ذکر اپنی تصنیفات میں خوب کیا ہے، جب انہوں نے لکھا کہ کشمیری دنیا کے مقابلے میں اپنے خطے کو وسیع و عریض مانتے ہیں۔ نہ جانے البیرونی نے ہم پر طنز کیا ہے یا ہماری مصومیت کو اجاگر کیا ہے۔
ابھی چند ہفتے پہلے سری نگر کے کئی علاقوں میں محکمہ فوڈ سیفٹی نے بازاروں میں سڑے ہوئے گوشت کے ایک بڑے سیکنڈل کو فاش کیا اور کئی دکانداروں کو دھر لیا گیا۔
اگلے روز سے سؤر، کتے اور گھوڑے کے گوشت کو ضبط کرنے کی اتنی جھوٹی ویڈیوز وائرل کر دی گئیں کہ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد نے قے کرکے گوشت کھانا ہی چھوڑ دیا، ہوٹلوں میں مندی پڑ گئی جو پہلے ہی پہلگام حملے کے بعد برے معاشی حالات میں تھے۔
پھر کیا تھا کہ کتے، بلی اور نہ جانے کتنے جانورں کا گوشت تباہ کرنے کی افواہیں اڑا دی گئیں۔
بعض افراد خوف کے مارے ہسپتالوں میں اپنے معدے کو صاف کروانے کے لیے بھی پہنچ گئے۔
سڑے ہوئے گوشت کو ضائع کرنے کی خبر صحیح تھی، مگر خبر کی افادیت افواہوں کی بھینٹ چڑھی۔
ان افواہوں نے معاشرے میں ہمیشہ سے اتنی کھلبلی مچائی ہے کہ حقیقی خبر بھی افواہوں کے بوجھ تلے دفن ہو جاتی ہے۔
1930 کی دہائی میں کشمیر کو افواہوں کے لیے میڈل دینا چاہیے تھا، جب ہردلعزیز رہنما شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں ان کے ورکروں نے پھیلایا کہ توت کے پتوں پر شیخ عبداللہ کا نام لکھا ہے، یعنی عبداللہ پر روحانی برکت نازل ہوئی ہے حالانکہ اس دور کے ماہر ماحولیات نے اس کی تردید کرتے لکھا تھا کہ توت کے پتوں کو سکیب جیسی بیماری لاحق ہے، جس کے نقش کو لوگوں نے شیخ عبداللہ کا نام سمجھا۔
پھر کیا تھا کہ شیخ عبداللہ کو راتوں رات روحانیت کے اس مرتبے تک پہنچا دیا گیا کہ اب ان کے لیے مردے کو زندہ کرنا ہی باقی رہ گیا تھا۔
دراصل اس وقت پاکستان نواز کشمیری سیاست دان اور میر واعظ مولوی یوسف شاہ کے ساتھ شیخ عبداللہ کی شدید رسہ کشی جاری تھی اور میر واعظ کو کم تر دکھانے کی کوشش میں شیخ کے مداحوں نے یہ کہانی گھڑلی۔
سن 90 کے ابتر حالات کے دوران بیشتر کشمیری انڈیا کے خلاف اپنا غصہ اتارنے کے لیے رات کی تاریکی میں اپنی چھتوں کے اوپر سٹیل کے برتن اور ٹین بجاتے رہتے تھے، جب سکیورٹی فورس نے اس کا نوٹس لے کر لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ بھوت پریت یا آسیب کو بھگانے کے لیے ٹین بجانا ضروری ہے۔
یہ افواہ گاؤں گاؤں، شہر شہر ایسی پھیلی کہ دورانِ شب کشمیر کی چھتوں پر ٹین بجتا رہتا اور سکیورٹی والوں کی نیند اڑ جاتی۔
جسمانی کثرت اپنی جگہ مگر بیشتر اس سے تفریح حاصل کرکے دل کو بہلاتے رہتے تھے جبکہ سکیورٹی والے بھوتوں کو دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے۔
گاؤں میں آج بھی گلی کوچوں یا نکڑ پر بیٹھ کر گپ شپ کرنے کی روایت برقرار ہے، جہاں سے تازہ تازہ افواہ یا جھوٹی خبر نکل کر شہروں میں پہنچ جاتی ہے۔
افواہ بازوں کی اُس وقت لاٹری نکلی، جب سوشل میڈیا کا وجود قائم ہوا۔ اب محنت کے بغیر ایک پوسٹ سے پورے علاقے میں دہشت بٹھانا یا ہنسانا آسان بن گیا ہے۔
شاید یہ سب نے محسوس کیا ہوگا کہ سوشل میڈیا خبریں کم اور افواہیں زیادہ پھیلاتا ہے، جس کے لاکھوں میں لائیکس یا ہٹس ملتے ہیں۔
کشمیر میں مسلح تحریک کے دوران جو افواہیں پھیلائی گئیں، ان پر ایک موٹی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
آزادی نواز جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے محبوس لیڈر محمد یاسین ملک کے بارے میں خبر زینہ کدل سے یہ عرف عام تھا کہ وہ سکیورٹی فورسز سے لڑنے کے دوران پانچ منزلہ مکان سے چھلانگ لگا کر فوجیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں اور ان کا جوتا سپائیڈر مین کی طرح اتنا پھولتا ہے کہ وہ 10 فٹ لمبائی اختیار کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
گھروں میں، دفتروں میں یا دکانوں پر اس کا احوال حقیقت کی طرح بیان کرکے قہقہے لگائے جاتے تھے۔ شاید اس سے اکثر لوگوں کی تشفی ہوتی تھی۔
معاشرتی امورکے ماہر سید طلعت رحمانی کہتے ہیں کہ کشمیر جیسے حالات میں جہاں صدیوں سے لوگ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، افواہ پھیلانا یا اس سے لطف حاصل کرنا جبر کے خلاف مزاحمت کا ایک عمل ہے، جو ان لوگوں کو زندہ رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اسی لیے کشمیر جیسی چھوٹی جگہ پر اتنی افواہیں پھیلتی ہیں کہ اصل خبر عوام تک پہنچتی نہیں اور پھر اصل خبروں پر قدغن کی وجہ سے افواہ ہی خبر کا کام کرتی ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ کشمیر میں صرف لوگ ہی افواہ نہیں پھیلاتے بلکہ سرکاری ادارے بھی عوام کی نبض اور موڈ جاننے کے لیے افواہوں سے کام لیتے ہیں تاکہ کسی بڑے اقدام سے پہلے اپنی تیاری مکمل کرلے۔ ایسا ہی کچھ کچھ اندازہ پانچ اگست 2019 کو بھی ہوا تھا۔
چند روز سے شدید بارشوں نے جموں و کشمیر میں شدید سیلابی صورت حال پیدا کی ہے، انٹرنیٹ اور فون بند ہونے کی وجہ سے صحیح خبر نہیں ملتی مگر افواہ بازوں نے جہاں خوف پھیلانے کے لیے اموات کی جھوٹی تعداد بتانی شروع کی ہے، وہیں لبریشن فرنٹ کے محبوس رہنما محمد یاسین ملک کو پھانسی دینے کی جھوٹی خبریں بھی گشت کروا رہے ہیں۔
کچھ بھی ہو، جن حالات سے عوام دوچار ہیں ان حالات سے بچنے کے لیے غیر جانبدار میڈیا کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے مگر اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
ایسے میں اگر دل کو ذرا سی تسکین دینے کے لیے افواہ پھیلائی بھی جاتی ہے تو کسی کا کیا جاتا ہے۔ شاید یہ چند لمحے ایک نئی صبح کی آمد کے انتظار میں بھاری نہیں لگتے ہوں گے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔