بڑی وجہ کہ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کبھی نہیں ملنا چاہیے

نوبیل کمیٹی نے ماضی میں کچھ متنازع فیصلے کیے لیکن صدر کے ہاتھوں امریکہ کی موسمیاتی اور امدادی پالیسیوں کی تباہی انہیں اس دوڑ سے باہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 10 اکتوبر 2025 کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی کے لرزتے ہوئے مینار پر اپنے نوبیل امن انعام کی درخواست چسپاں کر رہے ہیں تو شاید انہیں یہ احساس نہ ہو کہ ان کے سامنے ایک بہت بڑی رکاوٹ کھڑی ہے، جو موسمیاتی بحران کے حوالے سے ان کے ناقابل معافی ریکارڈ پر بین الاقوامی ردعمل ہے۔

ٹرمپ کی فلاحی کوششیں بلاشبہ دیرینہ تنازعات میں ہزاروں لوگوں کی جانیں بچا سکتی ہیں، لیکن یہ ان لاکھوں جانوں کے مقابلے میں ہیچ ہوں گی، جو عالمی حدت کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے ضائع ہو جائیں گی، جس کی ایک جزوی وجہ ٹرمپ کی خود غرضانہ پالیسیاں بھی ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے دنیا کے رہنماؤں کو بتایا کہ ان کے ممالک کو متاثر کرنے والا موسمیاتی بحران ’دنیا میں اب تک کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔‘ یہ ماحولیات پر کیے جانے والے تین رخی حملے کا حصہ ہے، جس میں امریکہ میں روایتی ایندھن کے استعمال کو جارحانہ طریقے سے فروغ دینا، ان غریب اقوام کے لیے امداد میں زبردست کٹوتی کرنا جو پہلے سے ہی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور عالمی موسمیاتی سفارت کاری کو غیر مستحکم کرنا شامل ہے۔

اقوام متحدہ کا گرین کلائمیٹ فنڈ شروع ہی سے ان کے نشانے پر تھا۔ یہ فنڈ ترقی پذیر ممالک کو سیلاب سے بچاؤ کے مضبوط نظام بنا کر اور فصلوں کی تباہی، شدید گرمی کی لہروں اور جنگلات کو لگنے والی آگ کے لیے تیاری کر کے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔

یہ رقم ساحلی برادریوں کی حفاظت کے لیے سمندر میں دیواریں بنانے، خشک سالی کا مقابلہ کرنے والی فصلیں تیار کرنے اور بڑھتے ہوئے سمندروں اور زمین کے صحرا میں تبدیل ہونے کے خطرے سے دوچار آبادیوں کو نئی جگہ منتقل کرنے کی پالیسیوں کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ ٹرمپ نے اس فنڈ کی مالی اعانت کے لیے امریکہ کی طرف سے چار ارب ڈالر (تین ارب پاؤنڈ) دینے کا وعدہ پورا کرنے سے انکار کر دیا۔

ماحول پر بات چیت کرنے والے افریقی گروپ نے اسے’انسانیت کے ساتھ سنگین ناانصافی‘ قرار دیا جب کہ پین افریقن کلائمیٹ جسٹس الائنس نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو ’سائنسی طور پر غلط اور اخلاقی طور پر ناقابل دفاع‘ کہا، اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ موسمیاتی بحران کے اثرات افریقہ میں پہلے ہی کروڑوں لوگوں کے لیے روزمرہ کی حقیقت بن چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ نے امریکہ ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی فنڈنگ میں کٹوتی کر کے اپنا حملہ جاری رکھا، جس سے خاص طور پر وہ غریب افریقی ممالک متاثر ہوتے ہیں، جو اس پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کٹوتیوں کے صحت پر سنگین اثرات پڑتے ہیں اور اندازوں کے مطابق چار سال کے اندر کروڑوں ایسی اموات ہوں گی جن سے بچا جا سکتا تھا اور غربت کی سطح میں اضافہ ہوگا۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ افریقہ میں موسمیاتی بحران کے ضمنی نتائج کے طور پر ان وسائل پر جھگڑے اور جنگیں بھڑک سکتی ہیں، جو بدلتے ہوئے موسم کی وجہ سے کمیاب ہو چکے ہیں۔

عالمی سطح پر ٹرمپ نے امریکہ کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ 1.5 درجے تک محدود رکھنے کے مقصد والے پیرس معاہدے سے نکال لیا ہے۔ ان کے اقدامات نے امریکہ پر ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر اعتماد کو مزید کم کر کے عالمی موسمیاتی سفارت کاری کو کمزور کر دیا۔

اسی دوران ’ڈرل کرو، بے بی ڈرل کرو‘ کا ان کا نعرہ وائرس کی طرح دنیا بھر میں پھیل گیا ہے، جس نے عوامیت پسند سیاست دانوں کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ سائنس کو جھٹلانے والے نظریات کا اظہار کریں اور ماحول دشمن گیسوں کا اخراج کم کرنے کی کوششیں ترک کر دیں۔

برطانیہ میں ریفارم پارٹی نے ٹرمپ کی پیروی کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ وہ زمین کو گرم کرنے والی گیسوں کے اخراج میں مرحلہ وار کمی کے لیے بنائے گئے قانوناً لازمی نیٹ زیرو قوانین ختم کر دے گی۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بحیرہ شمالی میں مزید ڈرلنگ سے گھریلو بلوں میں تیزی سے کمی آئے گی، حالاں کہ ماہرین کے مطابق اس سے بمشکل ہی کوئی فرق پڑے گا۔

کنزرویٹیوز نے بھی ریفارم کی پیروی کی مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے لگاتار اضافے پر کیسے قابو پائیں گے۔ (موسمیاتی ٹیکنالوجی کی لاگت کے بہت سے اندازوں میں کچھ نہ کرنے کی قیمت شامل نہیں۔)

امریکی سرزمین پر ٹرمپ نے منظم انداز میں موسمیاتی اور توانائی کی پالیسیوں کو پلٹ دیا ہے۔ گیس اور تیل کی صنعتوں سے مالی معاونت حاصل کر کے، وہ ’توانائی کے غلبے‘ کے نظریے کو آگے بڑھا رہے ہیں، جس کے تحت وہ جارحانہ انداز میں فوسل فیول کے نکالنے کو فروغ دے رہے ہیں، جب کہ سابق صدر جو بائیڈن کے متعین کردہ قابل تجدید توانائی کے فروغ کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھی توانائی کی کارکردگی اور گھریلو آلات کی کارکردگی جیسے معاملات پر بنائے گئے سینکڑوں قوانین اور ضوابط کو ختم کرنے میں سرگرم ہیں۔

انہوں نے ہوا سے بجلی، شمسی توانائی اور الیکٹرک وہیکلز کے شعبوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ وفاقی اداروں نے زمینی اور سمندری ہوا سے بجلی کے بڑے منصوبوں کی منظوریوں میں تاخیر کی ہے یا انہیں روک دیا ہے۔ انتظامیہ نے صاف توانائی کی گرانٹس اور سبسڈیز منسوخ یا معطل کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں گاڑیوں کے اخراج کے معیار واپس لے کر الیکٹرک وہیکلز کے لیے مراعات ختم کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے متنازع کی سٹون ایکس ایل اور ڈکوٹا ایکسس پائپ لائنز کی حمایت کی، حالاں کہ سائنس دان خبردار کر چکے ہیں کہ انسانیت کے پاس پہلے ہی اتنا فوسل فیول موجود ہے جو موسم کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے وسیع و عریض محفوظ وفاقی زمینیں اور پانی، جن میں آرکٹک نیشنل وائلڈ لائف ریفیوج (اے این ڈبلیو آر) بھی شامل ہے، تیل اور گیس کے ممکنہ طور پر جارحانہ انداز میں لیز کے لیے کھول دیے ہیں۔

ٹرمپ کی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) نے ڈیموکریٹس کے کلین پاور پلان کی جگہ کہیں کم سخت ’سستی صاف توانائی‘ قاعدہ نافذ کیا۔ ڈرلنگ کے عمل سے طاقتور میتھین کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے بنائے گئے ضوابط بھی واپس لے لیے گئے، حالاں کہ میتھین گرین ہاؤس گیس ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 20 گنا سے زیادہ طاقتور ہے۔

یہ سب ٹرمپ کے اس منصوبے کا حصہ تھا جس کا مقصد ماحولیاتی ’بوجھ‘ کم کرنا، توانائی میں خودکفالت یقینی بنانا اور ملک کی حیثیت کو دنیا کے سب سے بڑے تیل اور قدرتی گیس پیدا کرنے والے ملک کے طور پر مستحکم کرنا تھا۔

اب، نوبیل کمیٹی بعض اوقات متنازع فیصلے بھی کرتی ہے مثلاً ہنری کسنجر، باراک اوباما اور آنگ سان سو چی جنہیں مختلف وجوہ کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن 2007 میں اس نے امن کا انعام الگور اور انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج کو دیا۔

یہ انتہائی نامناسب ہوگا کہ ایسے شخص کو وہی اعزاز دیا جائے جو بظاہر زمین سے برسر پیکار ہے اور جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کو دھوکا، افسوس ناک اور مذاق قرار دیتا ہے۔

روجر ہیرابن کیمبرج کے سینٹ کیتھرینز کالج کے اعزازی فیلو اور بی بی سی کے سابق نمائندے ہیں۔

یہ مضمون دی انڈپینڈنٹ کے ری تھنکنگ گلوبل ایڈ پروجیکٹ کے تحت لکھا گیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر