پاکستان میں ٹرمپ کی نوبیل نامزدگی زیر بحث

حکومت پاکستان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے پر ملک میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایران پر امریکی حملے کے بعد اس نامزدگی کو واپس لیں۔

25 جون 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دی ہیگ میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے سربراہی اجلاس میں نارتھ اٹلانٹک کونسل کے مکمل اجلاس میں شریک (اے ایف پی)

حکومت پاکستان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے پر ملک میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایران پر امریکی حملے کے بعد اس نامزدگی کو واپس لیں۔

اپوزیشن رہنماؤں، سرگرم کارکنوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے امریکی صدر کو اس باوقار امن انعام کے لیے نامزد کرنے کو ’بے جا خوشامد‘ اور قومی بے عزتی قرار دیا ہے۔

یہ نامزدگی ایسے وقت میں سامنے آئی جب ایران پر امریکی بمباری سے محض چند گھنٹے قبل پاکستان نے ٹرمپ کو ’عملی سفارت کاری کی میراث‘ اور ’فیصلہ کن قیادت‘ پر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا، جس کے باعث مئی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان عسکری کشیدگی میں کمی آئی۔

لیکن بمشکل 24 گھنٹوں بعد ہی اسلام آباد نے ایران پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بین الاقوامی قوانین‘ اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ضوابط کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کو فون کر کے امریکی بمباری پر تشویش کا اظہار بھی کیا، جو اقوام متحدہ کے جوہری ادارے کی نگرانی میں موجود تنصیبات پر کی گئی تھی۔

امریکی صدر کی نامزدگی نے پاکستان کو ایک سفارتی الجھن میں ڈال دیا ہے۔ اسلام آباد نے فلسطینی مقصد کی مسلسل حمایت کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ جاری تنازعے میں ہمیشہ ایران کا ساتھ دیا ہے۔

پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی ’بلامشروط اور غیر مبہم‘ حمایت کا اعلان کیا، جو 1947 میں قیام پاکستان کے بعد اسے تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے ٹرمپ کی حمایت کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قومی وقار کو ٹھیس پہنچی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا ’ایک ایسا شخص جو غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی جنگ کی حمایت کرتا رہا اور ایران پر حملے کو ’شاندار‘ کہتا ہے، اسے نامزد کرنا ہمارے قومی وقار کے خلاف ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکومت کو اس ’غیر دانش مندانہ فیصلے پر شرمندہ‘ ہونا چاہیے اور ’اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے۔‘

جمعیت علما اسلام کے سربراہ سینیٹر مولانا فضل الرحمٰن نے اس نامزدگی کو اخلاقی طور پر ناقابل دفاع قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا ’ٹرمپ نے فلسطین، شام، لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی حمایت کی ہے، یہ کیسے امن کی علامت ہو سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جے یو آئی ہی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پیر کو سینیٹ میں ایک قرارداد جمع کروائی، جس میں حکومت سے امریکی صدر کی نامزدگی واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

روزنامہ ڈان کے مطابق قرارداد میں کہا گیا کہ ’سینیٹ آف پاکستان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ امریکی صدر کی نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی کو واپس لیا جائے، کیونکہ ایران پر امریکی بمباری بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی، ایران کی خودمختاری میں مداخلت اور انسانی حقوق کی پامالی ہے، جس سے خطے میں امن کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔‘

سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ٹرمپ نے ’جان بوجھ کر غیر قانونی جنگ کا آغاز کیا‘ اور وہ ’اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اثر میں آ چکے ہیں۔‘

انہوں نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور ’نامزدگی کو واپس لیں۔‘

انہوں نے ٹرمپ پر امریکہ کے زوال کی قیادت کرنے کا الزام بھی لگایا۔ مشاہد حسین نے مزید لکھا کہ ٹرمپ نے ’دھوکہ دہی سے کام لیا اور نئے تنازعات سے دور رہنے کا اپنا وعدہ توڑ دیا۔‘

ایک اور سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اس نامزدگی کو ’بے ہودہ خوشامد‘ قرار دیتے ہوئے کہا ’جب ٹرمپ پہلے ہی پاکستان کے کردار کی تعریف کر چکے تھے تو پھر نوبیل انعام کے لیے نامزدگی کی کیا ضرورت تھی؟‘

سول سوسائٹی کی شخصیات نے بھی اس معاملے پر رائے دی۔ کارکن نورِ مریم کنور نے کہا ’دوہری پالیسی پاکستان کا پرانا وتیرہ ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا ’امریکہ فلسطینی عوام کی نسل کشی کی حمایت کر رہا ہے اور ایران پر اسرائیلی بمباری کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر رہا ہے۔ 

’پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ کرائے کا ریاستی کردار ادا کرتا رہے گا۔‘

ٹرمپ کی نامزدگی پاکستان کے طاقت ور آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے فوراً بعد کی گئی۔

یہ ملاقات دو گھنٹے سے زائد جاری رہی، جس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف بھی شریک تھے۔

یہ ملاقات پاکستان کے لیے سفارتی کامیابی تصور کی گئی کیونکہ یہ انڈیا کے ساتھ حالیہ محدود فوجی جھڑپ کے فوراً بعد ہوئی۔ 

اس چار روزہ تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب انڈیا نے پاکستان پر کشمیر میں ایک دہشت گرد حملے کا الزام لگا کر فضائی حملے کیے۔

بعد ازاں، ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی میں ثالثی کی۔ تاہم انڈیا نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔

البتہ پاکستان کی جانب سے مسلسل ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا گیا اور اسے ’عظیم تزویراتی بصیرت اور شاندار قیادت‘ قرار دیا گیا جس نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں سے بات کر کے کشیدگی کو کم کیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا