گذشتہ مہینے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کو ممکن بنانے کی وجہ سے اسلام آباد نے 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ جنگ کے دوران 10 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا تھا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور انڈیا میں جنگ بندی کا سہرا اپنے سر لیتے ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’پاکستان نے حالیہ پاکستان انڈیا بحران کے دوران فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور اہم قیادت کے اعتراف میں 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے نام کی باضابطہ طور پر سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ایکس کی پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ ’عالمی برادری نے بلا اشتعال اور غیر قانونی انڈین جارحیت کی گواہی دی، جو پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی تھی، جس کے نتیجے میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت معصوم جانوں کا المناک نقصان ہوا۔
’اپنے دفاع کے بنیادی حق کو استعمال کرتے ہوئے، پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص شروع کیا جو کہ ایک نپا تلا، پرعزم اور قطعی فوجی ردعمل تھا، جو احتیاط سے ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنے اور اپنی علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کے لیے انجام دیا گیا تھا اور شعوری طور پر شہری نقصان سے گریز کیا گیا تھا۔‘
حکومت پاکستان کی پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ ’بڑھتے ہوئے علاقائی انتشار کے لمحے میں صدر ٹرمپ نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کے ساتھ مضبوط سفارتی مصروفیات کے ذریعے زبردست سٹریٹجک دور اندیشی اور شاندار حکمت عملی کا مظاہرہ کیا، جس نے تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کو کم کیا، بالآخر جنگ بندی کو یقینی بنایا اور دونوں جوہری ریاستوں کے درمیان وسیع تر تنازعے کو ٹال دیا، جس نے خطے کے لاکھوں لوگوں کو نقصان سے بچایا۔ اس سے آگے یہ مداخلت ایک حقیقی امن ساز کے طور پر ان کے کردار اور بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے ان کے عزم کا ثبوت ہے۔‘
پوسٹ میں کہا گیا کہ ’حکومت پاکستان بھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان جموں و کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کرنے میں مدد کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کی مخلصانہ پیشکشوں کو تسلیم کرتی ہے اور اس کی بہت تعریف کرتی ہے۔
’یہ مسئلہ علاقائی عدم استحکام کا مرکز ہے۔ جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ناگزیر رہے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید کہا گیا کہ ’2025 کے پاکستان انڈیا بحران کے دوران صدر ٹرمپ کی قیادت واضح طور پر ان کی عملی سفارت کاری اور امن کی مؤثر تعمیر سے دلچسپی کے تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ ان کی مخلصانہ کوششیں علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔
’خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جاری بحرانوں کے تناظر میں، بشمول غزہ میں رونما ہونے والا انسانی المیہ اور ایران میں بگڑتی ہوئی کشیدگی۔‘
صدر ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک نے امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے بعد جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ تب ممکن ہوا جب انہوں نے ممالک پر جنگ کی بجائے تجارت پر توجہ دینے پر زور دیا۔
دوسری جانب انڈیا اس بات کی تردید کرتا آیا ہے۔
انڈین سیکرٹری خارجہ وکرم مصری کہہ چکے ہیں کہ ’مئی میں چار روزہ تنازعے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی دونوں فوجوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حاصل کی گئی تھی نہ کہ امریکی ثالثی سے۔‘