کراچی: افغان بستی میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن، 400 سے زائد مکانات مسمار

نادرن بائی پاس کے قریب واقع افغان بستی کے مقیم جہاں وطن واپسی پر اداس ہیں، وہیں قبضہ مافیا کی جانب سے مکانوں پر ملکیت کے دعوؤں کے بعد 15 اکتوبر سے جاری انتظامیہ کے آپریشن کے نتیجے میں 400 سے زائد مکانات مسمار کیے جا چکے ہیں۔

کراچی میں نادرن بائی پاس کے قریب واقع افغان بستی کے مقیم جہاں وطن واپسی پر اداس ہیں، وہیں قبضہ مافیا کی جانب سے مکانوں پر ملکیت کے دعوؤں کے بعد 15 اکتوبر سے جاری انتظامیہ کے آپریشن کے نتیجے میں 400 سے زائد مکانات مسمار کر دیے گئے اور حکام کے مطابق یہ آپریشن ’گراؤنڈ زیرو‘ ہونے تک جاری رہے گا۔

حکومت پاکستان نے اپنے ایک حالیہ اعلامیے میں ملک بھر میں قائم افغان پناہ گزینوں کے کیمپوں کو بند کرنے اور کیمپ کی زمین متعلقہ حکام کے حوالے کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جمعے کو بھی وزیراعظم شہباز شریف نے تمام صوبائی حکومتوں کو ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی جلد از جلد واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

وزیر اعظم نے مزید کہا تھا کہ ’افغان پناہ گزینوں کو کسی بھی قسم کی اضافی مہلت نہیں دی جائے گی۔‘

حکومتی ہدایات کے نتیجے میں نادرن بائی پاس کے قریب واقع پناہ گزینوں کی بستی میں مقیم افغان خاندان بھی واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان میں 26 سالہ خاتون ضیا گل بھی شامل ہیں، جو پیدائشی طور پر چلنے پھرنے سے تو قاصر ہیں، مگر ان کے حوصلے بلند ہیں۔ شدید گرمی، بجلی کی عدم دستیابی اور نقل مکانی کے دباؤ کے باوجود وہ اپنی سلائی مشین پر کام میں مصروف نظر آئیں۔

انہوں نے لرزتی ہوئی آواز میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ کمرہ میرا سکون تھا۔ میں روز صبح اس کھڑکی سے سورج کی پہلی کرن دیکھتی تھی۔ اب سب چھوڑ کر جانا ہے دل یہیں رہ جائے گا۔‘

ضیا گل نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’میں کراچی میں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑی۔ اب اچانک اس جگہ سے رخصت لینا، وہ بھی ایسے حالات میں، میرے لیے کسی صدمے سے کم نہیں۔ میں معذور ہوں، ٹھنڈ برداشت نہیں کر سکتی۔ افغانستان جانا گویا ہمارے لیے بیگانے ملک جانے جیسا ہے۔‘

ایک طرف جہاں افغان خاندان واپسی کی تیاری کر رہے ہیں، وہیں قبضہ مافیا نے افغان بستی کے متعدد خالی گھروں کی دیواروں پر سپرے پینٹ سے اپنے نام بطور ’ملکیت‘ تحریر کر دیے، جس پر انتظامیہ نے بدھ کو مشترکہ آپریشن کر کے 100 سے زائد گھروں کو مسمار کر دیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ضیا گل کے والد جمال الدین 45 سال سے کراچی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ کیسی انسانیت ہے؟ تندور بند، بجلی کاٹ دی گئی، کھانے کو کچھ نہیں۔ قبضہ مافیا ہمارے گھروں کی دیواروں پر اپنے نام لکھ رہے ہیں۔ اگر جانا ہی ہے، تو کم از کم ہمیں عزت سے رخصت ہونے دو۔‘

جمال الدین کا کہنا تھا: ’ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ ہم نے ایک ایک پائی جمع کر کے گھر بنایا، ہمارے گھروں کو کم از کم ہماری آنکھوں کے سامنے مسمار نہ کیا جائے۔ اس سے اچھا ہے ہمارے اوپر بلڈوزر چڑھا دو، ہم مریں گے، دفن ہوں گے تو آرام ہو جائے گا۔ میرا دل نہیں چاہے گا کہ ہمارے سامنے ہمارے گھروں کو گرایا جائے۔‘

انہوں نے اپیل کی: ’ہم واپس جانا چاہتے ہیں، مگر افغانستان میں سردی آ رہی ہے، نہ چھت ہے نہ روزگار۔ ہمیں چھ ماہ کی مہلت دی جائے تاکہ ہم باعزت طریقے سے رخصت ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضیا اور جمال الدین جیسے بے شمار افراد کے لیے یہ بستی صرف اینٹوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ان کا ماضی، ان کی پہچان اور ان کی زندگی کا مرکز رہی ہے۔ لیکن اب ریاستی مشینری کے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران ان کی یہ زندگی مٹی تلے دفن ہو رہی ہے۔

عبدالرحیم، جو اس بستی میں ’مولوی صاحب‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے کہا: ’آج کے بعد اس بستی میں کوئی افغان نظر نہیں آئے گا۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’علاقے میں سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ نہ پانی، نہ خوراک، نہ روشنی اور یہی وہ عوامل ہیں جو لوگوں کو مجبوری میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ جب سے آپریشن شروع ہوا ہے، باقی بچے مکانات میں قبضہ مافیا داخل ہو رہے ہیں اور خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہمارے سامنے ہمارے گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، ہم نے انہیں بنانے کے لیے عمر لگائی تھی۔

قبضہ مافیا سے علاقہ چھڑوانے کے لیے پولیس، رینجرز اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے)نے مشترکہ آپریشن کیا۔

ایس ایچ او اینٹی انکروچمنٹ شایان انجم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بدھ کو بتایا تھا: ’100 مکانات مسمار کر دیے گئے ہیں اور یہ آپریشن گراؤنڈ زیرو ہونے تک جاری رہے گا، تاہم آپریشن کے دوران پولیس کو شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ قبضہ مافیا کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا جس کے باعث علاقے میں صورت حال کشیدہ ہو گئی اور ممکن ہے کہ یہ کشیدگی آئندہ بھی جاری رہے، تاہم فورسز ہر طرح کی مزاحمت سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مزاحمت کے دوران 10 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

دوسری جانب خود کو سوشل ورکر بتانے والے محمد علی ببر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سندھ کے  غریب اور مزدور لوگ یہاں آئے ہیں اور یہ لینڈ مافیا نہیں۔

انہوں نے بتایا: ’پیپلز پارٹی نے ہمیں آج تک ایک پلاٹ نہیں دیا۔ اب ہمیں قبضہ مافیا کہا جا رہا ہے، ہم پر ظلم اور تشدد کیا جا رہا ہے۔ ہم مزدور ہیں، لینڈ مافیا نہیں۔‘

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ویسٹ عرفان بلوچ کے مطابق ماضی میں اس افغان بستی میں تقریباً 30 ہزار افغان باشندے مقیم تھے، جنہیں تین مراحل میں واپس افغانستان بھیجا گیا، تاہم اب بھی تقریباً دو ہزار افراد علاقے میں موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ زمین کو مکمل طور پر خالی کروا کے ایم ڈی اے کے حوالے کیا جائے گا تاکہ آئندہ غیر قانونی قبضوں سے بچا جا سکے۔

ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے تجویز دی ہے کہ خالی ہونے والی زمین کے تحفظ کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے، جس میں ایم ڈی اے، ڈپٹی کمشنر اور پولیس حکام شامل ہوں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 16 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان پناہ گزین آباد ہیں جبکہ 2021 میں افغان طالبان کے آنے کے بعد چھ لاکھ مزید پناہ گزین پاکستان منتقل ہوگئے تھے، جنہیں وطن واپس بھیجنے کے لیے پاکستانی حکومت کے اقدامات جاری ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان