افغان پناہ گزین کیمپوں کی بندش: ’واپسی کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا تھا‘

پشاور کے خراسان کیمپ میں مقیم پناہ گزین لائق خان کے مطابق انہوں نے کبھی افغانستان جانے کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ وہاں نہ جان پہچان ہے، نہ کام کرنے کے مواقع ہیں اور نہ وہاں جانے کو دل کرتا ہے۔

لائق خان اپنے گھر کے باہر پوتوں کے ساتھ موٹرسائیکل پر ڈاکٹر کے پاس جانے کو تیار تھے کیونکہ انہیں کمر کے درد کا مسئلہ درپیش تھا۔

مٹی سے بنے ان کے گھر کا دروازہ لکڑی کا تھا، جس کے سامنے کھمبوں پر ایک کپڑے کا پردہ لگایا گیا تھا۔

قریب ہی دستی واٹر پمپ نصب تھا جہاں سے بچے اور بڑے پانی پی رہے تھے اور گھروں کے لیے بھی لے کر جا رہے تھے۔

گھروں کے بالکل سامنے بڑا سا میدان تھا جہاں کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے اور کچھ پتنگ اڑانے میں مصروف تھے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ کھیل کا میدان، یہ گھر، یہ علاقہ اب انہیں چھوڑنا پڑے گا۔

یہ مناظر پشاور میں واقع خراسان کیمپ کے ہیں۔ خزانہ کے علاقے کے قریب واقع اس کیمپ میں تقریباً 13 ہزار افغان پناہ گزین آباد ہیں، لیکن اب 43 دیگر کیمپوں کے ساتھ حکومت نے یہ کیمپ بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 16 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان پناہ گزین آباد ہیں جبکہ 2021 میں افغان طالبان کے آنے کے بعد چھ لاکھ مزید پناہ گزین پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔

وفاقی حکومت نے 15 اکتوبر کو جاری اعلامیے میں بتایا کہ خیبر پختونخوا میں قائم 40 سال سے زائد افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے 43 کیمپوں کو بند کرنے اور کیمپ کی زمین متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے حوالے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

لائق خان جن کی عمر اب 46 سال ہے، تین سال کی عمر میں افغانستان سے یہاں آئے اور اپنی زندگی کے 43 سال انہوں نے یہیں گزارے۔

سر پر ضلع دیر کی روایتی ٹوپی اور کندھے پر چادر اوڑھے لائق خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 43 سالوں سے اسی کیمپ میں آباد ہیں اور اب ان کے پوتے اور نواسے بھی موجود ہیں، جو یہیں پیدا ہوئے۔

’یہ کیمپ میرے سامنے بنا اور آباد ہوا۔ یہاں پہلے فارسی بولنے والے افغان پناہ گزین زیادہ تھے لیکن اب افغان پشتون زیادہ ہیں اور تقریباً 600 خاندان یہاں آباد ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لائق خان نے بتایا: ’ہماری پوری زندگی یہاں پر گزری ہے۔ میں یہاں کنسٹرکشن کے شعبے میں بطور مزدور کام کرتا ہوں لیکن اب کیمپ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو حیران ہوں کہ ہم کہاں جائیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کبھی افغانستان جانے کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ وہاں نہ جان پہچان ہے، نہ کام کرنے کے مواقع ہیں اور نہ وہاں جانے کو دل کرتا ہے۔ ’سوچتا ہوں کہ وہاں جا کر کرنا کیا ہوگا۔‘

لائق خان کے نو بچے ہیں، جن میں سے چار سکول میں زیرِ تعلیم ہیں لیکن اب وہ پریشان ہیں کہ بچوں کے سکول کا کیا ہوگا۔

انہوں نے بتایا: ’بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوگی۔ ہم نے اس کیمپ کو آباد کیا ہے تو اب یہی گھر لگتا ہے۔ ہم جانے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں لیکن حکومت پاکستان نے اگر فیصلہ کیا ہے تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘

افغانستان سے 80 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران لاکھوں افغان پناہ گزین نقل مکانی کر کے پشاور میں آباد ہوئے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق اس وقت پناہ گزینوں کے لیے پاکستان بھر میں 84 کیمپس قائم کیے گئے۔ ان کیمپوں میں 71 کیمپس خیبر پختونخوا میں قائم کیے گئے، جن میں بڑے کیمپوں میں جلوزئی، شمشتو، خزانہ اور خراسان کے علاوہ دیگر چھوٹے بڑے کیمپس شامل تھے۔

پناہ گزینوں کو انہی کیمپوں میں یو این ایچ سی آر کی جانب سے امداد بھی دی جاتی رہی جبکہ مختلف غیر سرکاری اداروں کی جانب سے انہیں کاروبار کے لیے سامان بھی مہیا کیا گیا تھا۔

بعض پناہ گزینوں کو شہد کی مکھیوں کی پیٹیاں دی گئیں اور اسی وجہ سے ترناب شہد مارکیٹ کی یونین کے مطابق پشاور کے علاقے ترناب میں شہد کے کاروبار سے وابستہ 50 فیصد سے زائد افراد افغان پناہ گزین ہیں۔

تاہم یو این ایچ سی آر کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افغان پناہ گزین صوبے کے دیگر اضلاع میں آباد ہونا شروع ہوگئے اور کیمپوں سے چلے گئے۔

آج بھی آپ کو پشاور سمیت صوبے کے پوش علاقوں میں کرائے کے مکانوں میں افغان پناہ گزین ملیں گے، جن میں سے بعض بڑے کاروباروں سے وابستہ ہیں۔

پاکستان نے 2023 میں افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، جس کے تحت اب تک چھ لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

پشاور میں خزانہ پناہ گزین کیمپ میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ کیمپ میں مقیم پناہ گزینوں کو ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت سے مراسلہ تو جاری کیا گیا ہے لیکن ہمیں افغان کمشنریٹ کی جانب سے ابھی تک کوئی ہدایات جاری نہیں ہوئیں۔

اہلکار نے بتایا: ’جیسے ہی کمشنریٹ کی جانب سے کوئی ہدایات ملتی ہیں تو اسی کے مطابق کیمپ کو ختم کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان