حکومت پاکستان نے تقریبا 45 سال قبل ملک بھر میں قائم کیے جانے والے افغان پناہ گزین کیمپوں میں سے 16 کو مکمل طور پر بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں لیکن ان میں کام کرنے والے 1200 ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
ملک بھر سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا عمل آخری مراحل میں ہے جبکہ 25 ستمبر کو وزارت سیفرون کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بند کیے جانے والے کیمپس ہری پور، چترال، اپر دیر، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، پشین، کوئٹہ اور میانوالی میں قائم تھے۔
ان کیمپوں کی ہزاروں کنال زمین کے مالکان کو زمین واپسی یا ان کیمپوں کے لیے سکولوں، ہسپتالوں اور پانی کی فراہمی کے لیے کام کرنے والے 1200 سے زائد ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔
پاکستانی حکومت نے 1979-80 میں سوویت یونین حملے کے بعد افغانستان میں خراب صورتحال کے پیش نظر افغان شہریوں کو اپنی سرزمین پر پناہ لینے کی جازت دی تھی۔
جس کے بعد سرکاری سطح پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر کے تعاون سے یہاں مختلف علاقوں میں باقائدہ افغان پناہ گزین کیمپ قائم کیے گئے تھے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں 30 جون 2025 تک ساڑھے 13 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود تھے لیکن پاکستان کے افغان شہریوں کو وطن واپس بھیجنے کے بڑے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونے سے قبل ملک میں افغانوں کی کل آبادی بشمول غیر دستاویزی افراد، کا تخمینہ تقریباً 25 لاکھ سے زیادہ لگایا تھا۔
حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشنز میں بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قائم 10، پنجاب میں میانوالی کا کیمپ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں 43 کیمپوں میں سے پانچ کیمپ فوری طور پر بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
ان کیموں میں مقیم افغان پناہ گزین کی اکثریت واپس جا چکی ہے اور جو رہ گئے وہ بھی واپسی کی تیاری میں ہیں۔
افغان پناہ گزین کیمپ کمشنر فیاض چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت کے احکامات پر ہم نے افغان پناہ گزین کیمپ بند کردیے ہیں۔ ان کیموں کی زمین اور وہاں بنائے گئے سکول، ہسپتالوں یا دیگر سہولیات کے لیے بنائی گئی عمارتیں بھی خالی کرائی جارہی ہیں۔ یہاں چار دہائیوں سے کام کرنے والے سرکاری یا یو این ایچ سی آرکے ملازمین سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘
پناہ گزین کیمپوں کی زمینیں اور عمارتوں کی حوالگی
فیاض چیمہ کے بقول ’ہم نے حکومتی احکامات کے مطابق کیمپوں کی زمینیں اور وہاں بنی ہوئی عمارتیں ضلعی انتظامیہ کے حوالے کر دی ہیں۔ زمینیں کیونکہ مقامی شہریوں سے ٹھیکے پر لی گئی تھیں اور عمارتیں سرکاری ہیں۔ لہذا اب ضلعی انتظامیہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ زمینوں اور وہاں بنی عمارتوں سے متعلق کیا ہوسکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میانوالی میں 390 ایکڑ پر قائم کیمپ جو ہزاروں کنال اراضی بنتی ہے اس کے مالکان حکومت کی جانب سے 15 سال سے ٹھیکہ (طے شدہ کرایہ) نہ ملنے کا شکوہ کر رہے ہیں۔ وہاں کام کرنے والے سرکاری ملازمین بھی روزگار کی فکر میں ہیں۔
میانوالی کے علاقے کوٹ چاندنہ میں کیمپ ختم ہونے کے بعد مقامی زمیندار ہاشم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارے دادا نے 45 سال پہلے افغان پناہ گزین کا کیمپ لگانے کے لیے 300 کنال زمین حکومت کو ٹھیکے پر دی تھی۔ لیکن ہمیں صرف ایک بار ٹھیکہ ادا کیا گیا ہے۔ اب کیمپ تو ختم ہوگیا لیکن مجھ سمیت تمام زمین مالکان کو زمین واپس نہیں کی گئی۔
’390 ایکڑ زمین یہاں کے مقامی زمینداروں کی ہے۔ یہاں سکول اور ہسپتال سمیت سرکاری عمارتیں اور بستیاں بنی ہیں اس لیے ہمین اپنی زمین اور بقایا جات کی ادائیگی بارے کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔‘
بقول ہاشم خان ’چار دہائیوں سے ہماری زمین پر کیمپ بنا ہوا ہے اکثریت میں یہاں رہنے والے مہاجرین جا چکے ہیں۔ 10 سے 12گھر ابھی بھی یہاں رہ گئے ہیں جو جانے کی تیاری میں ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے پاس یہاں رہنے کا اجازت نامہ بھی تھا اور کافی بغیر دستاویزات کے بھی رہائش پزیر تھے۔ اس کیمپ کی وجہ سے یہان بازار اور آبادیاں بھی بنی ہوئی ہیں۔ لیکن کیمپ خالی ہونے سے یہاں گھروں اور عمارتوں کا مالک کون ہوگا یہ بھی طے نہیں کیا گیا۔‘
ملازمین کی پریشانی
کوٹ چاندنہ میانوالی کیمپ کے لیے بنے سرکاری ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر رفاقت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میں 40 سال سے یہاں ہسپتال میں سرکاری طور پر ڈیوٹی کر رہا ہوں۔ بطور ایم ایس مجھے ابھی تک محکمہ صحت کی جانب سے معلومات نہیں دی گئیں کہ ہسپتال کو بند کرنا ہے یا چلتا رہے گا۔ البتہ یہاں کام کرنے والے تمام ملازمین پریشان ہیں کہ ان کی نوکریوں کا کیا بنے گا۔
’کیمپ ختم ہونے کے بعد اس ہسپتال کی اتنی ضرورت نہیں جتنی پہلے تھی۔ لیکن یہاں اطراف کی آبادیوں اوردور دراز کے گاوں سے بھی مریض آتے ہیں۔‘
رفاقت اللہ کے بقول ’حکومت نے اس کیمپ کے لیے بننے والی تمام عمارتوں کو خالی کرنے کا ابھی تک حکم نہیں دیا البتہ یہ جلعی انتظامیہ کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ اس لیے امید یہی ہے کہ اس ہسپتال کے ملازمین کی نوکریوں کو خطرہ ہے۔‘
یہاں قائم کیمپ میں کام کرنے والے سرکاری ملازم عابد نور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم یہاں کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں کچھ سرکاری ملازم ہیں اور کئی یو این ایچ سی آر کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں اب یہ معلوم نہیں کہ ہمیں دوسرے محکموں میں ضم کیا جائے گا یا نوکریوں سے برطرفی مقدر بنے گی۔ ملازمین کی بڑی تعداد ہے جن کے گھر ان کی تنخواہ سے چلتے ہیں۔ اگر کیمپ بند ہونے پر نوکریاں ختم کی گئیں تو کئی گھرانے متاثر ہوں گے اور لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔‘
یو این ایچ سی آر کے مطابق 30 جون 2025 تک پاکستان میں 13 لاکھ سے زیادہ سے زیادہ افغان شہری تھے۔
ان میں سے نصف سے زیادہ 717,945 خیبر پختونخوا میں، 326,584 بلوچستان میں، 195,188 پنجاب میں، 75,510 سندھ میں اور 43154 اسلام آباد میں رہتے تھے۔