گھر زیر آب، کیمپ میں پناہ گزین، لیکن طالبہ کا تعلیم کا عزم برقرار

افشاں نورین گھر کے ڈوب جانے، نقل مکانی کی تکالیف اور امدادی کیمپ میں درپیش مسائل کے باوجود تعلیم کے حصول میں مصروف ہیں۔

لاہور کے نواحی علاقے موہلنوال میں متاثرین سیلاب کے لیے قائم ایک امدادی کیمپ کے ایک خیمے میں ایک لڑکی کتابیں سامنے رکھے اردگرد سے انجان پڑھائی میں مصروف ہے۔

یہ نرسنگ کی طالبہ افشاں نورین ہیں، جن کے لاہور اور بہاولنگر میں آبائی مکانات سیلاب کی زد میں آئے ہیں اور خاندان کو گھر بار کو چھوڑ کر امدادی کیمپ میں پناہ لینا پڑی ہے۔

تاہم گھر کے چھن جانے کا غم، بے سروسامانی کی حالت میں امدادی کیمپ تک سفر اور کیمپ میں پیش آنے والے مسائل نے بھی افشاں کی حصول تعلیم کے لیے لگن اور شوق میں کمی نہیں آنے دی۔ وہ اب بھی اسی طرح حصول علم میں کوشاں ہیں جیسے نہ سیلاب آیا ہو، نہ ان کے دو گھر ڈوبے ہوں اور نہ وہ اور ان کا خاندان کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

پنجاب میں ریکارڈ سیلاب نے نہ صرف لوگوں کے گھر تباہ کیے بلکہ زیر تعلیم بچوں کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ متاثرہ والدین کے پاس تعلیمی اخراجات بھی نہیں رہے، جب کہ بے رحم سیلابی ریلیوں نے کئی بچوں کو کتابیں تک گھروں سے اٹھانے کی مہلت نہیں دی۔

پنجاب حکومت گذشتہ ہفتے سیلاب زدہ اضلاع میں تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند رکھنے کا حکم جاری کر چکی ہے، جس کے تحت مقامی انتطامیہ نے قصور، نارروال، بہاولنگر، گجرات اور سیالکوٹ سمیت متعدد متاثرہ اضلاع کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے تعلیمی ادارے بند کر رکھے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بھی تعلیمی سرگرمیاں سات ستمبر تک بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

افشاں نورین کے بقول، ’میں نے بی ایس نرسنگ پروگرام میں پہلے سمسٹر کے پیپر دیے ہیں لیکن تین پریکٹیکل ابھی رہتے ہیں جن کی تیاری کر رہی ہوں۔‘

لیکن ان کے والدین کے پاس اب پریکٹیکل کا سامان خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ ان کا لاہور کا گھر سیلاب کے پانی میں ڈوبا پڑا ہے جب کہ بہاولنگر میں آبائی مکان دریائے ستلج میں اٹھنے والی طغیانی کے نیتیجے میں ڈوب چکا ہے۔

افشاں کے والد پھلوں کی ریڑھی لگاتے ہیں اور آج کل بہاولنگر والے گھر کا احوال جاننے کی خاطر وہاں گئے ہوئے ہیں۔

نرسنگ کی طالبہ اپنی دو بہنوں اور والدہ کے ہمراہ کیمپ میں مقیم ہیں۔ 

افشاں کا کہنا تھا کہ ’کچھ دن پہلے جب دریائے راوی میں سیلاب آیا اس دن بارش ہو رہی تھی میں بے ہوش ہو گئی۔ ہمیں ریسکیو کیا گیا ور ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ اب اس کیمپ میں موجود ہیں یہاں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پڑھنا مشکل ہے۔ موبائل سے اسائنمنٹ کرنا پڑتی ہے۔ اسے چارج نہیں کر پا رہی۔ شروع میں واش روم کا بھی مسئلہ تھا جو اب وہ حل ہو گیا ہے۔

’پہلے سمسٹر کی فیس ادا کر دی تھی اب دوسرے سمسٹر کی فیس ادا کرنا ہے وہ بھی پریشانی ہے۔ لیکن میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افشاں کی والدہ نصرت بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کی تینوں بیٹیاں زیر تعلیم ہیں اور وہ کیمپ میں بچیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔

’کھانے پینے کے علاوہ ان کی حفاظت کا سب سنجیدہ مسائل ہے۔ ہمیں تو سیلاب نے کپڑے اٹھانے کی مہلت بھی نہیں دی۔ بچیاں یونیفارم میں ہی گھر سے نکلیں اب بس کسی نہ کسی طرح گزارہ کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں پانی کب اترے گا اور ہماری پریشانیاں دور ہوں گی۔‘

نصرت نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے اپیل کی کہ ان کی بیٹیوں کے مسائل پر توجہ دی جائے انہیں اس مشکل وقت میں ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے صوبے بھر میں سرکاری و نجی سکولوں کی عمارتوں کو نقصان سے متعلق رپورٹ تیار کرنا شروع کر دی ہے۔

حکام نے سیلاب کی صورت حال ختم ہونے پر مکمل رپورٹ جاری کرنے کا بتایا ہے۔ تاہم ان دنوں مختلف شہروں میں آبادیوں کے زیر آب آنے سے ہزاروں طلبہ بھی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب ٹاسک فورس برائے تعلیم کے چیئرمین مزمل محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سیلاب سے اب تک 2925 سکول مختلف اضلاع میں پانی سے متاثر ہوئے، جب کہ 1150 سکول ایسے ہیں جہاں سیلابی پانی آیا اور سکول بند کرنا پڑے۔ اسی طرح 800 سے زیادہ سکولوں کی عمارتیں جزوی طور پر متاثر ہوئی ہیں اور 45 عمارتیں مکمل طور پر منہدم ہو چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تین لاکھ 38 ہزار طلبہ جبکہ تین لاکھ 55 ہزار سے زیادہ طالبات کی تعلیم کا عمل رکا ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان